نئی دہلی//
سپریم کورٹ نے منگل کے روز جموں و کشمیر میں حد بندی کے احکامات کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر ۳۰ نومبر کو سماعت کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔
جموں و کشمیر کے رہائشیوں نے سپریم کورٹ میں حد بندی کمیشن کی سفارشات کو چیلنج کرنے والی درخواست میں کمیشن کی جانب سے اسمبلی نشستوں میں اضافے کو بھارتی آئین کے دفعہ۸۱‘۸۲‘۱۷۰؍اور۳۳۰؍اور۳۳۲ اور جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ ۲۰۱۹ کی دفعہ ۶۳ کی خلاف ورزی قرار دے کر سفارشات کو کالعدم قراری دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
درخواست گزار نے دائر عرضی میں کہا کہ جموں و کشمیر کے آئین میں ۲۰۰۲ میں کی گئی۲۹ویں ترمیم نے جموں و کشمیر میں حد بندی کے عمل کو۲۰۲۶ کے بعد تک منجمد کر دیا ہے۔
درخواست میں استدلال کیا گیا ہے کہ اس وقت بھی جب بھارت کے آئین کا دفعہ ۱۷۰؍ اشارہ کرتا ہے کہ اگلی حد بندی کی مشق۲۰۲۶ کے بعد ہی عمل میں لائی جائے گی۔ جموں و کشمیر کے یو ٹی حد بندی کا عمل نہ صرف من مانی ہے بلکہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کی بھی خلاف ورزی ہے۔
درخواست میں یہ بھی عرض کیا گیا کہ۳؍اگست۲۰۲۱ کو لوک سبھا کے غیر ستارہ والے سوال نمبر ۲۴۶۸ کے جواب میں ’سوال اے پی ری آرگنائزیشن ایکٹ، ۲۰۱۴ میں تلنگانہ اور آندھرا پردیش اسمبلیوں میں نشستوں کی تعداد بڑھانے کے حوالے سے تھا‘۔
وزارت داخلہ میں وزیر مملکت نے کہا ’آئین کے دفعہ ۱۷۰(۳) کے مطابق، ہر ریاست کی اسمبلی میں نشستوں کی کل تعداد کو سال۲۰۲۶ کے بعد پہلی مردم شماری کے شائع ہونے کے بعد دوبارہ ترتیب دیا جائے گا۔
عرضی میں جموں و کشمیر کے یو ٹی میں سیٹوں کی تعداد۱۰۷ سے بڑھا کر ۱۱۴ (پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر کی ۲۴ نشستوں سمیت) کو آئین کیدفعہ ۸۱‘۸۲‘۱۷۰‘۳۳۰؍۳۳۲؍اور سیکشن ۶۳ کی خلاف ورزی قرار دینے کو بھی چیلنج کیا گیا ہے۔
جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ۲۰۱۹ اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ تبدیلی متعلقہ آبادی کے تناسب سے نہ ہونا یو ٹی ایکٹ کے سیکشن۳۹ کی بھی خلاف ورزی ہے۔
۲۰۰۴ کو جاری کردہ اسمبلی اور پارلیمانی حلقوں کی حد بندی کے رہنما خطوط اور طریقہ کار کے مطابق تمام ریاستوں کی قانون ساز اسمبلیوں میں موجودہ نشستوں کی کل تعداد بشمول یو ٹی کے یں سی ار اور پانڈیچیری کو۱۹۷۱ کی مردم شماری کی بنیاد پر طے کیا گیا تھا جس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی تھی،سال ۲۰۲۶کے بعد ہونے والی پہلی مردم شماری تک۔