خبر ہے کہ شہر سرینگر کے میئر نے اپنے ادارے سے وابستہ اعلیٰ عہدیداروں کے ایک اجلاس میں سرینگر میں ترقیاتی پروجیکٹوں کی رفتار، بجلی کے کھمبوں پر نئی روشنی کے بلب لگانے ، نئے پروجیکٹوں کے لئے ٹینڈر اجراء کرنے ، افرادی قوت اور فنڈز وغیرہ کی دستیابی کا جائزہ لیا اور ان سبھی اشوز کے بارے میں ضروری کارروائی کیلئے ہدایات دی۔
کاموں کا وقفے وقفے سے جائزہ لینا صحیح سمت میں درست قدم ہے لیکن یہ اُسی صورت میں واجب ہے کہ جب کام ہورہے ہوں۔ جب کام ہی نہیںہورہے ہوں تو عمل آوری کے حوالہ سے جائزے لینا محض رسم رہ جاتاہے۔ سرینگر کے شہری (میونسپل) حدود تقریباً ۲۵ کلومیٹر تک ہیں لیکن شہریوں کو جن بلدیاتی مسائل کا سامنا ہے وہ آج کے نہیں بلکہ دیرینہ ہیںجنہیں بدقسمتی سے ایڈریس نہیں کیاجارہاہے۔
گلی کوچوں کی خستہ حالت، ڈرینوں میں بہہ رہا گندہ پانی گلی کوچوں کو سیراب کرکے عبور ومرور کو ناممکن بنارہاہے، جہاں بجلی کے کھمبوں پر بلب نصب ہیں وہ بجلی کی سپلائی کیلئے ترس رہے ہیں اور جہاں سالہاسال کے دعوئوں کے باوجود ابھی تک بلب نصب نہیں وہ تاریکی ہیںڈوبتے رہتے ہیں، سمارٹ سٹی پروجیکٹ کا شوراب ایک مدت سے سنائی دے رہاہے لیکن یہ پروجیکٹ مکمل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے، کہاں اور کس علاقے میں اس پروجیکٹ کے تحت کام ہورہے ہیں معمولی ٹوٹ پھوٹ کے علاوہ زمین پر کچھ بھی نظرنہیں آرہاہے، رواں مالیاتی سال بیت رہاہے لیکن میونسپلٹی کی جانب سے ابھی ٹینڈر اجرا ء کرنے کے بارے میں سو چاہی جارہاہے، فنڈز دستیاب ہیں تو کس حد تک اس بارے میں بھی ابھی صورتحال جائزہ کے مراحل میںہے۔
اس زمینی صورتحال کے باوجود اگر واقعی سرینگر کے سبھی میونسپل وارڈوں میں تعمیراتی اور ترقیاتی کام ہورہے ہیں ، شہر سرینگر جو سرمائی دارالخلافہ بھی ہے کی تزئن وترتیب، دیدہ زیب بنانے اور شہریوں کے ساتھ ساتھ ملکی اور غیرملکی سیاحوں کے لئے مسحور کن اور خوشنما کی سمت میں کیا کچھ عملی طور سے کیاجارہاہے اس کے بارے میں شہر کا میئر اور اس کی ٹیم اور بحیثیت مجموعی سرینگر میونسپل کے دوسرے انتظامی آفیسران بہتر معلومات رکھتے ہوں تو وہ عوام کو بتائیں۔ یہ بھی بتانے کی زحمت گوارا کریں کہ سٹی سمارٹ پروجیکٹ کے تحت کیا کچھ اب تک کیاگیا اور آنے والے دنوں میںکیا کچھ زیر غور ہے۔
البتہ اسی حوالہ سے جب جموں شہر میں ہورہے ترقیاتی اور تعمیراتی کاموں پر محض سرسری نگاہ پڑتی ہے تو یہ یقین کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ کیا جموں میونسپل کی اتنی صلاحیت ، گنجائش اور اہلیت ہے کہ بیک وقت جموں کے سبھی میونسپل وارڈوں میں بڑے پیمانے پر ترقیاتی ، تعمیراتی اور تجدیدی کام ہورہے ہیں، جگہ جگہ جے سی بی، ریت کے انبار، نئی ٹائلوں کے پہاڑسینکڑوں مزدور اور کاریگر اپنے اپنے حصے کے کاموں کی عمل آوری میںمنہمک ۔ کوئی گلی ،کوئی وارڈ، کوئی سڑک شام ہوتے اور رات کے دوران تاریکی میں ڈوبی نہیں ہوتی، زیر زمین پرانی خستہ حال پائپوں کو اکھاڈ کر نئی پائپ لائنوں کی تنصیب، صفائی کرمچاریوں کی صبح سویرے گلی کوچوں اور سڑکوں کی صفائی اور شام کے اوقات میں گندگی ، کوڈا کرٹ سے بھرے ڈسٹ بنوں کو اُٹھاکر لے جانے اور ان کی جگہ خالی ڈسٹ بن رکھنے کاکام معمول بنایاگیاہے۔
سرینگر کے میونسپل حدود میں اس کے برعکس یا اس کے متوازن کیا ہے، مایوسی ہی نظر آرہی ہے۔ کچھ ماہ قبل شہر سرینگر کے میئر نے ایک کانفرنس کے حاشیہ پر جموں شہر کے میئر کے بارے میں بتایا تھا کہ وہ ’’میرا بھائی‘‘ ہے اپنے اسی بھائی سے جموں شہرکے سبھی میونسپل وارڈوں میں جاری بڑے پیمانے پر ہورہے کاموں کے بارے میں طریقہ کار کے حوالہ سے معلومات تو حاصل کئے جاسکتے ہیں تاکہ جموں کا شہر اور سرینگر کا شہر، جن کی حیثیت جموں وکشمیرکے دارالخلافوں کی ہے کو تعمیر وترقی ، دیدہ زیبی اور خوبصورتی کے ساتھ ساتھ سہولیات کے تعلق سے ہم پلہ لایا جاسکے۔
جہاں تک سرینگر اور جموں کے میونسپل وارڈوں کے لئے منتخب اراکین کا تعلق ہے تو اس بارے میں جموں کو سرینگر پر فوقیت حاصل ہے۔ جموں میونسپل کے میئر اور ڈپٹی میئر کے بارے میں کچھ اختلافی نوٹ سامنے آنے پر دونوں کو عہدوں سے ہٹاکر نئے میئر اور ڈپٹی میئر کا انتخاب خاموشی کے ساتھ عمل میں لایاگیا، ا س کے برعکس سرینگر میونسپل کے منتخب اراکین اپنے پہلے دن سے ایک دوسرے پر عد م اعتماد ، کورپشن اور بدعنوانیوں کے الزامات اور گروپ بندی کے حوالہ سے خبر اور نظرمیں ہیں۔کبھی ایک پارٹی سے وابستگی کا اعلان تو کبھی کسی دوسر ی پارٹی کے ساتھ وفاداری کا عہد وپیمان۔
بہرحال سرینگر کی شہری آبادی کو بہت سارے بلدیاتی مسائل کا بھی سامنا ہے، صحت وصفائی بھی ان میں شامل ہے جبکہ شہر کی سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر ناجائز تجاوزات اور قبضوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ بھی جاری ہے ، اشیاء ضروریہ میں ملاوٹ کی وبا اپنے عروج پر ہے جبکہ اس حوالہ سے کوئی حرکت نظرنہیں آرہی ہے، ریڈہ بان جہاں جی چاہئے ریڈی لگا کراپنی دکان سجا لیتاہے چاہئے پیدل چلنے والوں کا عبورومرور ناممکن ہی کیوں نہ بن جائے یا ٹریفک بھی جام کیوں نہ ہو اس کیلئے کوئی نظام اور نظم نہیں، ماضی میں اس کا تعلق برسراقتدار سیاسی جماعتوں کی ووٹ بینک سیاست سے رہا ہے لیکن اب جبکہ حالات بدل چکے ہیں سڑکوں اورفٹ پاتھوں پر ناجائز قابضین کا راج برابر برقرار ہے۔
میئر صاحب آپ اپنی سیاسی اننگ کی پہلی اننگز کھیل رہے ہیں ، آگے مستقبل ہے آج کی تاریخ میں سرپرستی کرنے والے ہاتھ آنے والے کل میں اپنا ہاتھ کھینچ بھی سکتے ہیں ، لہٰذا وکٹ پر مضبوطی سے قدم جمانے کیلئے ضروری ہے کہ شہریوں کو درپیش مسائل اور معاملات کا ازالہ کرنے کی طرف سنجیدہ توجہ مبذول کی جائے۔