جموں//
جموں کشمیر کے سرمائی دارالحکومت جموں میں بدھ کو تاجروں نے دربار مو روایت کے خاتمے کے خلاف ایک بار پھر احتجاج کیا۔
احتجاجی تاجروں کا کہنا تھا کہ دربار مو روایت کے خاتمے سے ان کی تجارت پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
یو این آئی اردو کے نامہ نگار نے بتایا کہ بدھ کے روز پرانی منڈی جموں میں ہول سیل، رٹیلرز اور دکانداروں نے دربار مو کی روایت ختم کرنے کے خلاف احتجاجی جلوس نکالا ۔احتجاج میں شامل دکانداروں نے ہاتھوں میں پلے کارڈ اُٹھا رکھے تھے جن پر دربار مو کو بحال کرنے کے الفاظ درج تھے ۔
ایک احتجاجی تاجر نے نامہ نگاروں کو بتایا’’ہم کورونا کی مار اور جی ایس ٹی سے پہلے ہی پریشان تھے کہ اب دربار مو روایت کے خاتمے کی وجہ سے مزید پریشان ہو گئے ہیں‘‘۔
تاجر کا مزید کہنا تھا’’حکومت تو ہمیں کوئی راحت فراہم نہیں کر رہی بلکہ ہم سے ہمارا روزگار چھین رہی ہے ۔ ہمیں لگتا ہے کہ آنے والے وقت میں ہمیں اپنی دکانیں بند کرنی پڑیں گی‘‘۔
احتجاج میں شامل سماجی کارکن‘ سنیل ڈمپل نے کہا کہ دربار مو کی روایت کو بند کرنے سے جموں کے تاجروں کو ناقابل تلافی نقصان برداشت کرناپڑرہا ہے ۔انہوں نے کہا’’سرکار کہتی ہے کہ دربار مو کی وجہ سے۲۰۰کروڑ روپے ضائع ہو جاتے تھے لیکن یہ کیوں نہیں کہتی ہے کہ اس کو بند کرنے سے تاجروں کا کتنا نقصان ہوا ہے ‘‘۔
ڈمپل کا مزید کہنا تھا’’کیا سرکار چاہتی ہے کہ یہاں کے تاجر اپنی دکانیں بند کر کے اپنے گھروں میں بیٹھ جائیں‘‘؟اُن کے مطابق کرونا کی مار کے بعد دربار مو کی مار سے جموں کے تاجر وں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے ۔انہوں نے بتایا کہ مہاراجہ کی اس دو سو سالہ روایت کو ختم کرنے کی کس نے ایل جی انتظامیہ کو یہ مشورہ دیا ہے ۔
تاجروں نے مطالبہ کیا کہ وقت ضائع کئے بغیر دربار مو کی روایت کو جلداز جلد بحال کیا جائے تاکہ جموں کے تاجروں کوان دو سالوں کے دوران جو نقصان پہنچا اُس کی بھر پائی ہو سکے ۔
بتا دیں اپوزیشن پارٹیوں کا بھی ماننا ہے کہ جموں و کشمیر میں زائد از سوا سو صدی پرانی دربامو کی روایت سے سب سے زیادہ فائدہ جموں کو تھا۔
ان کا کہنا تھا’’دربار مو سے سب سے زیادہ فائدہ جموں کو تھا کشمیر کو کوئی فائدہ نہیں تھا کیونکہ جب دربا جموں میں لگتا تھا تو کشمیر کے ملازمین اپنی پوری فیملی کے ساتھ جموں منتقل ہو جاتے تھے اور چھ مہینوں تک وہیں سکونت اختیار کرتے تھے جبکہ جموں کے ملازمین اکیلے کشمیر آتے تھے ۔‘‘