بالی//
وائٹ ہاؤس سے جاری اعلامیہ کے مطابق صدر جو بائیڈن اور ان کے چینی ہم منصب شی جن پنگ نے دونوں ممالک کے درمیان متنازعہ مسائل کے بارے میں کھل کر بات کی اور یوکرین میں روس کی جنگ پر تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے شی جن پنگ کو بتایا کہ دونوں ممالک کے درمیان مقابلہ تنازعات کا باعث نہیں بننا چاہیے۔
صدر بائیڈن اور ان کے چینی ہم منصب شی جن پنگ نے جی 20 سربراہی اجلاس کے موقع پر ملاقات کی۔ تقریباً دو سال قبل بائیڈن کے عہدہ سنبھالنے کے بعد سے دونوں صدور نے اپنی پہلی آمنے سامنے ملاقات کی، دونوں سپر پاورز کے درمیان بڑھتی ہوئی اقتصادی اور سکیورٹی کشیدگی میں یہ ملاقات اہم سمجھی جا رہی ہے۔
بائیڈن اور شی نے پیر کو انڈونیشیا کے بالی میں سربراہی اجلاس کے آغاز پر مصافحہ کیا۔
چینی صدر نے اپنے امریکی ہم منصب کا استقبال کیا بائیڈن نے مسکراتے ہوئے کہا کہ "آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی” دو گھنٹے تک جاری رہنے والی تفصیلی بات چیت کا آغاز جذبہ خیر سگالی کے الفاظ سے ہوا۔ بائیڈن نے شی کو یقین دلایا کہ بالمشافہ بات چیت کا "کوئی متبادل نہیں اور واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان "تصادم” سے بچنا ہی بہترین آپشن ہے‘‘۔
اپنی طرف سے صدر شی نے امریکی صدر سے کہا کہ "ہم سب امریکا اور چین کے تعلقات کے بارے میں بہت خیال رکھتے ہیں”۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ بائیڈن کے ساتھ سٹریٹجک امور پر "فرینک” بات چیت کے لیے تیار ہیں۔
وائٹ ہاؤس نے اس سے قبل اعلان کیا تھا کہ امریکی صدر پیر کو اپنے چینی ہم منصب شی جن پنک کے ساتھ ملاقات کے دوران بات چیت کا دوبارہ آغاز کرنا چاہتے ہیں جو کچھ دیر قبل شرکت کے لیے انڈونیشیا پہنچے تھے۔
وائٹ ہاؤس نے مزید کہا کہ بائیڈن واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے تناظر میں "ضمانت” قائم کرنے کی بھی کوشش کریں گے۔
وائٹ ہاؤس کے ایک سینیر اہلکار نے ایک امریکی نامہ نگاروں سے بات کی کہ "ذمہ داری سے رابطہ کاری کو مضبوط کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ جبکہ ساتھ ہی ساتھ "ضمانت” اور "واضح قواعد” کی وضاحت کی تاکہ سپر پاورز میں مقابلہ تنازع میں تبدیل نہ ہو جائے”۔
وائٹ ہاؤس نے کہا کہ ہم مقابلے میں ہیں۔ صدر بائیڈن اس بات کو سمجھتے ہیں، لیکن وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ مسابقت کی اپنی حدود ہوں، ہم بفر بناتے ہیں، ہمارے پاس روڈ میپ کے واضح اصول ہیں اور یہ کہ ہم یہ سب کچھ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کرنا ہے کہ مقابلہ تنازعہ میں تبدیل نہ ہو۔”
ایک امریکی اہلکار نے صحافیوں کو بتایا کہ امریکی صدر کو اس نقطہ نظر میں اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں” کی حمایت حاصل ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تعلقات کو ذمہ داری سے آگےبڑھانے کے لیے زمین ہموار کرنے کے وسیع مواقع موجود ہیں۔
اپنی طرف سے چین نے پیر کے روز اس امید کا اظہار کیا کہ صدر شی جن پنگ اور ان کے امریکی ہم منصب جو بائیڈن کے درمیان انڈونیشیا میں ہونے والے G20 سربراہی اجلاس سے قبل ہونے والی ملاقات سے تعلقات پٹڑی پر واپس آ جائیں گے۔”
اے ایف پی کی جانب سے بالی میں ہونے والی بات چیت سے چین کی توقعات کے بارے میں پوچھے جانے پر چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ماؤ ننگ نے ایک باقاعدہ پریس کانفرنس میں کہا کہ "ہمیں امید ہے کہ امریکا چین کے ساتھ مل کر اختلافات پر قابو پانے، باہمی فائدہ مند تعاون کو فروغ دینے اور غلط ہمیوں سے بچنے کے لیے کام کرے گا۔
بائیڈن نے 2021 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے دونوں رہ نماؤں نے پانچ بار فون یا ویڈیو کے ذریعے بات کی ہے، لیکن وہ 2017 سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔
یوکرین پر روس کے حملے کی مذمت کرنے سے چین کے انکار کے علاوہ واشنگٹن اور بیجنگ چین کے سنکیانگ علاقے میں تجارت سے لے کر انسانی حقوق اور تائیوان کی حیثیت تک کے معاملات پر متضاد موقف رکھتے ہیں۔
امریکی عہدیدار نے کہا ہے کہ دنیا توقع کرتی ہے کہ دونوں ممالک کچھ معاملات پر مل کر کام کریں گے ۔ہم ایک ذمہ دار ملک کے طور پر یقین رکھتے ہیں کہ ہمیں مل کر کام کرنا چاہیے۔”