سرینگر//
چین کے ساتھ خطے میں دیرپا سرحدی تعطل کے درمیان چیف آف آرمی اسٹاف جنرل منوج پانڈے نے ہفتے کے روز کہا کہ مشرقی لداخ میں صورتحال’مستحکم لیکن غیر متوقع ہے‘۔
ایک تھنک ٹینک میں ایک خطاب میں، جنرل پانڈے نے یہ بھی کہا کہ ہندوستانی فریق باقی مسائل کے حل کے لیے چین کے ساتھ اعلیٰ سطحی فوجی مذاکرات کے اگلے دور کا منتظر ہے۔
جنرل پانڈے نے کہا کہ ہم مذاکرات کے ۱۷ویں دور کی تاریخ کے منتظر ہیں۔
فوجی سربراہ نے مشرقی لداخ میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول کے ساتھ مجموعی صورتحال کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جہاں تک پی ایل اے کی فورس کی سطح کا تعلق ہے، اس میں کوئی خاص کمی نہیں آئی ہے۔
جنرل پانڈے تھنک ٹینک ’چانکیہ ڈائیلاگز‘ سے خطاب کر رہے تھے۔
سرحدی علاقوں میں چین کی طرف سے انفراسٹرکچر کی ترقی پر آرمی چیف نے کہا کہ یہ بلا روک ٹوک جاری ہے۔
خطے میں ہندوستانی فوج کی فوجی تیاریوں کے بارے میںجنرل پانڈے نے کہا ’’ہماری موسم سرما کی پوزیشن میں منتقلی جاری ہے‘‘۔
جنرل پانڈے نے یہ بھی کہا ’’ایل اے سی پر ہمارے اقدامات کو بہت احتیاط سے کیلیبریٹ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے مفادات اور حساسیت کی حفاظت کی جاسکے۔‘‘
اس دوران بین الاقوامی ماہرین کی ایک تحقیق کے مطابق اکسائی چن کے علاقے میں چینی تجاوزات حادثاتی واقعات نہیں ہیں بلکہ متنازعہ سرحدی علاقے پر مستقل کنٹرول حاصل کرنے کے لیے منصوبہ بند اور مربوط’توسیع پسندانہ حکمت عملی‘کا حصہ ہیں۔
نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی، ٹیکنیکل یونیورسٹی آف ڈیلفٹ اور نیدرلینڈز کی ڈیفنس اکیڈمی نے’ہمالیہ کے علاقے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی: ہندوستان میں چینی سرحدی تجاوزات کا جغرافیائی تجزیہ‘ کے عنوان سے ایک مطالعہ کیا۔
اس نے پچھلے ۱۵ سالوں کے بنیادی ڈیٹا کا استعمال کرتے ہوئے تجاوزات کا جغرافیائی تجزیہ کرتے ہوئے کہا ہے’’ہم دیکھتے ہیں کہ تنازعہ کو دو آزاد تنازعات میں الگ کیا جا سکتا ہے‘ مغرب اور مشرق جو اکسائی چن اور اروناچل پردیش کے بڑے متنازعہ علاقوں کو گھیرے ہوئے ہیں‘‘۔انہوں نے کہاکہ ہمارا نتیجہ یہ ہے کہ مغرب میں چینی دراندازی کی حکمت عملی سے منصوبہ بندی کی گئی ہے جس کا مقصد مستقل کنٹرول حاصل کرنا ہے، یا کم از کم متنازعہ علاقوں کی واضح حالت کو برقرار رکھنا ہے۔
تجزیہ میں کہا گیا ہے کہ چینی فوجی سرحد کے ارد گرد بین الاقوامی طور پر قابل قبول علاقوں میں ہندوستان کی سرزمین کے طور پر موجود ہیں۔ انہوں نے ایسے۱۳ مقامات کو نقشے پر نشان زد کیا ہے جہاں اکثر دراندازی ہوتی رہتی ہے۔
بھارتی حکومت کے۲۰۱۹ کے اعداد و شمار کے مطابق، چینی فوج نے ۲۰۱۶ سے۲۰۱۸ کے درمیان۱۰۲۵ بار بھارتی علاقے میں دراندازی کی۔ اس وقت کے وزیر مملکت برائے دفاع شری پد یسو نائک نے نومبر ۲۰۱۹ میں لوک سبھا کو بتایا کہ چینی فوج نے ۲۰۱۶ میں۲۷۳ بار دراندازی کی جو ۲۰۱۷ میں بڑھ کر۴۲۶ ہو گئی۔۲۰۱۸ میں ایسے واقعات کی تعداد ۳۲۶ رہی۔
اس تحقیق میں جون ۲۰۲۰ میں گلوان تنازعہ کا ذکر کیا گیا ہے جس میں ۲۰ہندوستانی فوجی اور متعدد چینی فوجی بھی مارے گئے تھے۔