غیر اعلانیہ کٹوتی، آنکھ مچولی اور دیگر حیلے بہانوں کا سہارا لے کر بجلی کی سپلائی منقطع کرنے کی بیماری آج کی نہیں بلکہ اب کئی دہائیوں سے لاحق ہے، یہ مرض ایسا ہے کہ جس کا علاج ممکن نہیں ہورہاہے، ہرگذرتے روز وشب کے ساتھ یہ مرض شدت اختیار کرتاجارہاہے۔
موسم سرماکی آمدآمد کے ساتھ ہی کشمیر میں لوگوں کو بجلی کے سنگین بحران کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ موسم گرما کی آمد کے ساتھ ہی جموں میں لوگوں کو کم وبیش اسی پریشان کن صورتحال کاسامنا ہے ۔ اعلانات تو بہت سارے کئے جارہے ہیں ، وزراء آتے ہیں۷x۲۴ بجلی کی سپلائی کو یقینی بنانے کا مژدہ سناتے ہیں اور چلے جاتے ہیں لیکن زمینی حالت میں کوئی بدلائو نہیں آرہاہے۔ کبھی ٹرانسمشن لائنوں کی تنصیب تو کبھی گرڈ اسٹیشنوں کو مضبوط بنانے کا اعلانات کرکے لوگوں کو بہلا پھسلایا جارہاہے، ہر موسم، سرما ہو یا گرما ، لوگ ان یقین دہانیوں پر بھروسہ کرتے ہیں اس اُمید اور یقین کے ساتھ کہ شاید یہ عدہ ، یہ اعلان اور یہ یقین دہانیاں آخری ہوں لیکن دن گذرتے ہی یہ سبھی اعلانات اور یقین دہانیوں کے غباروں سے ہوا نکل جاتی ہے۔
بہرحال اب کی بار جموں وکشمیر کے چیف سیکریٹری ڈاکٹر ارن کمار مہتہ نے ابھی چند رو ز قبل اعلیٰ سطح کے اجلاس سے متعلقہ ادارے سے وابستہ آفیسروں پر واضح کردیا کہ کٹوتی اور آنکھ مچولی ایسے چونچلے ناقابل قبول ہیں جبکہ انہوںنے سپلائی کے موجودہ نظام کو سرنو مرتب کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ موسم سرما کے دوران صارفین کو سہولیت فراہم کرنے کی کوشش کی جائے۔
اس حوالہ سے یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ چیف سیکریٹری نے سرینگر …جموں قومی شاہراہ پر بار بار ٹریفک میں خلل پڑنے کے واقعات کا نوٹس لیتے ہوئے نہ صرف خود شاہراہ کا کئی بار دورہ کیا بلکہ متعلقہ اداروں پر دوٹوک الفاظ میں یہ بات واضح کردی کہ شاہراہ پر ٹریفک کی نقل وحرکت کو یقینی بنانے کی سمت میں جوبھی مناسب اور ضروری اقدامات ہیں انہیں اُٹھایاجائے۔ چیف سیکریٹری کی اس پہل کے بعد سے سرینگر جموں شاہراہ پر ٹریفک کی نقل وحمل قدرے اطمیان بخش رہی، حالانکہ اس مدت کے دوران کئی بار بارشوں کا سلسلہ بھی ہوتا رہا لیکن بحیثیت مجموعی شاہراہ پر ٹریفک کی نقل وحرکت کو ممکن بنایاگیا، جس کے نتیجہ میں نہ صرف مال بردار گاڑیوں کی آمد ورفت بلا روک ٹوک ہوئی بلکہ عام مسافر بھی آنے جانے میں راحت محسوس کرتے رہے۔
بجلی کی ترسیل کے حوالہ سے اُمید کی جارہی ہے کہ چیف سیکریٹری کی مداخلت اور ہدایات کا بھی محکمہ بجلی کے ارباب اُسی طرح احترام کریں گے جس طرح سے سرینگر جموں شاہراہ پر ٹریفک مینجمنٹ اور سڑک کے رکھ رکھائو کے ذمہ دار اداروں نے احترام ملحوظ خاطر رکھا۔ البتہ محکمہ بجلی کے ذمہ داروں سے یہ توقع کی جارہی ہے کہ وہ بجلی کی سپلائی میںآنکھ مچولی اور غیر اعلانیہ اور بغیر شیڈول کے کٹوتی کیلئے روایتی حیلے بہانوں کی آڑمیں سجدہ ریز ہونے کی اپنی روش سے اجتناب کریں گے، اور اس کے برعکس حقیقت پسندانہ طرزعمل اور انداز فکر اختیار کرتے ہوئے صارفین کی مشکلات اور ضرورتوں کا احساس کرتے ہوئے’’مائی وے آر ہائی وے ‘‘ کے خول سے خود کو باہر نکالنے کی سنجیدہ کوشش کریں گے۔
سرما کی سختیوں ، ٹھنڈی اور یخ بستہ ہوائوں ، رگوں میں دوڑنے والے خون کو منجمد کرنے والی سردیوں سے پیدا مشکلات اور پریشانیوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے بجلی کی سپلائی کو تسلسل کے ساتھ یقینی بنانے کا احساس اُجاگر کیاجائے تو سارا سسٹم از خود بہتر بن جائے گا۔ لیکن اگر یہی پرانی راگنی کا راگ جاری رہا کہ صارفین بلاضرورت بجلی استعمال نہ کریں، بلوورز اور ہیٹرس کا استعمال ترک کریں‘۔رائس ککر میں کھانا نہ پکایاجائے، یا اسی نوعیت کے دوسرے بھونڈے ہدایات نامے جاری کئے جاتے رہیں تو یہ تاثر مستحکم ہوجائے گا کہ جموں وکشمیرمیں محکمہ بجلی سے وابستہ حکام پتھروں کے دورمیں ہی جی رہے ہیں اور فکری طور سے ابھی پسماندہ ہی ہیں۔
یہ شعبہ ناکامیوں سے کیوں جھوج رہا ہے اس کی کئی ایک وجوہات ہیں،ان ناکامیوں کو راستے اور ترقی کے سفرمیں پتھر سمجھ کر ہٹانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جارہی ہے۔ ان ناکامیوں کی گنتی کریں تو کئی ایک سنگین نوعیت مگر ساتھ ساتھ معاونت کے حوالہ سے اُبھر کر سامنے آجاتی ہیں۔ میٹر نصب کرنے کی ابتداء ہوئی تو کچھ مخصوص کالونیوں کو چن لیاگیا ، باقی ۹۰؍ فیصد سے زائد بستیوں کو بغیر میٹر کے رہنے دیا گیا، کچھ دیر بعدان نصب شدہ میٹروں کو ناکارہ قرار دیاگیا اور نئے طرز اور ساخت کے ڈیجیٹل میٹر نصب کرنے کا فیصلہ لیاگیا۔ ان نئے میٹروں کی تنصیب کیلئے بھی انہی چند گنے چنے علاقوں کو مختص کردیاگیا۔ اور اب جبکہ سمارٹ میٹر نصب کرنے کا فیصلہ لیاگیا تو ان کی تنصیب کیلئے بھی انہی چند مخصوص علاقوں کا انتخاب عمل میں لایاگیا۔ اس طرح جن علاقوں کو ڈیجیٹل میٹروں کی تنصیب کے دائرے میں نہیں لایاگیا ان علاقوں کو فلیٹ ریٹ پر بجلی فراہم کی جارہی ہے۔
محکمہ بجلی کا یہ طریقہ کارنہ صرف جانبدارانہ اور غیر منصفانہ ہے بلکہ کورپشن کی بدبو بھی دور سے محسوس کی جارہی ہے۔ مالی اعتبار سے جس مالی خسارے کا رونا رویا جارہاہے وہ محکمہ بجلی کے اسی اندازفکر ، طرزعمل اورد قیانوسی سسٹم کا مرہون منت ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ اعلیٰ حکومتی سطح پر اس اہم ترین خامی کی طرف توجہ نہیں جاتی یا شاید یہ فرض کرلیاگیا ہے کہ محض چند رہائشی کالونیوں میں سمارٹ میٹر نصب کرنے سے مالی خسارہ پر قابو پایاجائے گا، جو ممکن نہیں۔