جمعہ, مئی 9, 2025
  • ePaper
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
No Result
View All Result
Home اداریہ

الیکشن: مارچ…اپریل ، یا نومبر …دسمبر

نیشنل کانفرنس میدان میں اُتر گئی

Nida-i-Mashriq by Nida-i-Mashriq
2022-11-05
in اداریہ
A A
آگ سے متاثرین کی امداد
FacebookTwitterWhatsappTelegramEmail

متعلقہ

اپنے آپ کو دیکھ اپنی قباکو بھی دیکھ 

قومی دھارے سے ان کی وابستگی کا خیر مقدم 

کب اور کس قت الیکشن کا بگل بجادیاجائے گا، کچھ قطعیت کے ساتھ کہا نہیں جاسکتا البتہ اگلے سال مارچ اپریل کے حوالہ سے قیاس آرائیاں ہیں لیکن حتمی فیصلہ الیکشن کمیشن کا ہی ہوگا۔
کشمیر اور جموں میں جتنی بھی سیاسی پارٹیاں ہیں وہ کسی نہ کسی طور سے الیکشن پراسیس میں مصروف عمل نظرآرہی ہیں، کچھ پارٹیوں کے درمیان اندرون خانہ گٹھ جوڑ کے تعلق سے صلاح ومشورے بھی ہورہے ہیں لیکن فی الحال یہ صلاح ومشورے حتمی نہیں ہیں بلکہ اپنے ابتدائی مرحلہ میں ہیں۔
کشمیر میں گپکار الائنس کے بارے میں کچھ عرصہ سے یہ تاثر پایا جاتا رہا کہ یہ الائنس مشترکہ طور سے الیکشن میں حصہ لے گی لیکن نیشنل کانفرنس نے وادی کے کم وبیش سبھی انتخابی حلقوں کے لئے انچارج حلقوں کی تعیناتی کااعلان کیا ہے اس سے لگتا ہے کہ غالباً نیشنل کانفرنس کسی قبل از وقت الائنس میں شمولیت اختیار کرنے کے بجائے اپنے طور سے الیکشن میدان سرکرنا چاہتی ہے۔ جبکہ گپکار الائنس کے تعلق سے اتحادی جماعتوں کے ساتھ مابعد الیکشن کسی اتحادی گٹھ جوڑ کی ضرورت پڑنے پراس کو اتحاد کی لڑی میں پروسنے کے امکانات کا جائزہ لیاجائے گا۔
ویسے بھی پارٹی نائب صدر عمرعبداللہ بار بار اس وضاحت کو سامنے لاتارہاہے کہ گپکار الائنس کسی انتخابی شراکت نامے کے تعلق کے مقصد کے تحت نہیں بلکہ کچھ حساس سیاسی وآئینی معاملات اور حقوق کی بحالی کی جدوجہد کو متحد طور آگے بڑھانے کیلئے عمل میںلائی گئی ہے، عمرعبداللہ کے بار بار کے اعلانات کے تناظرمیں نیشنل کانفرنس کی جانب سے اسمبلی حلقوں کیلئے انچارج کی تعیناتی حیران کن نہیں۔ اگر چہ خود عمرعبداللہ اوران کے والد ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے اپنے لئے کسی انتخابی حلقے کو مخصوص نہیں کیا ہے لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ وہ دونوں الیکشن میدان سے باہر رہینگے، پھر بھی اس سب کا انحصار اُس وقت کے حالات پر ہے۔تاہم فاروق عبداللہ نے اس بات کو واضح کیا ہے کہ عمر الیکشن اُس وقت تک نہیں لڑینگے جب تک نہ ریاستی درجہ بحال کیاجائے گا۔
نیشنل کانفرنس کی طرف سے حلقوں کے لئے انچارج افراد کی تقرری کا تعلق اگر چہ براہ راست آنے والے الیکشن سے ہی ہے تاہم اس سرگرمی کو پارٹی کی جانب سے اعلانیہ طور کسی الیکشن عمل سے وابستہ کرنے سے نہیں بلکہ نچلی عوامی سطح پر پارٹی کیلئے عوامی اعتماد پھر سے بحال کرنے اور پارٹی اور لوگوں کے درمیان رابطہ کو مضبوط کرنے کے عمل سے جوڑا جارہاہے۔ اسی مقصد کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے عمر عبداللہ کچھ دنوں سے طو ل وارض کا دورہ کررہے ہیں اور اس مقصد کیلئے وہ کرگل اور جموں کے کچھ دور افتادہ علاقوں تک بھی پہنچ گئے ہیں جہاں بڑے اور درمیانہ درجے کے عوامی اجتماعات بھی مشاہدے میں آچکے ہیں۔جبکہ اسی دوران عمر کے کچھ ٹیلی ویژن چینلوں کے ساتھ انٹرویو ز بھی دیکھے جاتے رہے ہیں جن میں اشاروں ہی اشاروں میں عمر نے چنائوکے حوالہ سے پارٹی منشور کے کچھ اقتباسات بھی پیش کئے ہیں۔
کچھ ٹیلی ویژن چینلوں کے ساتھ انٹریوز کے دوران عمر نے کسی پارٹی کے ساتھ انتخابی گٹھ جوڑ کوخارج از امکان تو قرار نہیں دیا البتہ ضروت پڑنے پر ہم خیال اور اشوز کی بُنیاد پر گٹھ جوڑ پر اپنی آمادگی ظاہر ضرور کی۔ لیکن ساتھ ہی سابق وزیراعلیٰ غلام نبی آزاد، جس نے اپنی پارٹی حا ل ہی میں تشکیل دی ہے کے ساتھ گٹھ جوڑ کے کسی امکان کا عندیہ تو نہیں البتہ آزاد سے یہ شکوہ ضرورت کیا کہ وہ آئینی ضمانتوں، خصوصی پوزیشن وغیرہ کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کرہے ہیں وہ ان سے اجتناب کریں کیونکہ ان کے اس موقف سے بحالی کی سمت میں ان کی جدوجہد منفی طور سے متاثر ہو سکتی ہے۔
غلام نبی آزاد بحیثیت کانگریس لیڈر نیشنل کانفرنس کے بہت قریب سمجھے جاتے رہے ہیں اور پارلیمنٹ تک رسائی بھی نیشنل کانفرنس کی حمایت کے سہارے بھی ہوتی رہی ہے لیکن اب آزاد کے بارے میں تصویر اس لئے بدل سکتی ہے کیونکہ آزاد کانگریس سے آزاد ہو چکے ہیں جبکہ نیشنل کانفرنس بدستور کانگریس نواز سمجھی جارہی ہے ۔پارٹی کانگریس سے اپنی دوری خاص کر اپنی تاریخی سانجھے داری سے دستبرداری کی متحمل نہیں ہوسکتی ہے۔ اس اعتبار سے ممکن ہے کہ آزاد کا این سی کے ساتھ نبھاہ نہ ہو تاہم اُس کا بھی دارومدار الیکشن نتائج پرہی ہے۔
کشمیرکے تعلق سے الیکشن منظرنامے پر محض سرسری نگاہ ڈالی جائے تو کچھ ایسی تصویر اُبھرتی نظرآرہی ہے جو کسی بھی پارٹی کیلئے مایوس کن ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ پارٹیوں کی بہتات نے جہاں علاقہ پرستی اور مسلک پرستی کو اُبھارنے میں اب تک اہم کردار اداکیاہے وہیں یہ ووٹ بحیثیت مجموعی اب مختلف خانوں میں تقسیم درتقسیم ہوتا دکھائی دے رہاہے۔ خدا کرے کہ عوامی حلقوں کا یہ خدشہ یا محسوسات غلط اور مفروضہ ثابت ہو لیکن فی الوقت زمینی سطح پر حقیقت یہی نظرآرہی ہے ۔ ذاتوں، مسلکوں، فرقوں اور علاقوں پرمبنی سیاست کا کشمیر کے طول وارض میں جو جنم ہوا ہے اور اس وقت بھی بڑی تیزی کے ساتھ مزید جنم پاتا جارہاہے وہ کشمیر کے کسی بھی حق اور وسیع ترمفاد میںبہتر ثابت نہیں ہوسکتا، بلکہ کشمیر کے مفادات کو اب تک جو کچھ بھی نقصان پہنچا ہے ووٹ تقسیم درتقسیم ہونے کے بعد اس کو مزید کئی طرح کے نقصانات کو سہنا پڑسکتاہے۔
اس حوالہ سے یہ کوئی مبالغہ آرائی نہیں کہ بی جے پی کشمیر میںکشمیرنشین کم وبیش سبھی پارٹیوں کیلئے ایک بڑے چیلنج کے طور حالیہ برسوں میں اُبھر چکی ہے، عوام کے نچلی سے نچلی سطح تک اس کے رابطے مستحکم ہوئے ہیں، مختلف نوعیت کے پروگراموں اور پروجیکٹوں کی بدولت آبادی کے مختلف طبقے استفادہ حاصل کررہے ہیں، پارٹی کی قیادت کی طرف سے بار بار یہ کہاجارہاہے کہ گذرتے ۷۵؍ برسو ں کے دوران جو بھی پارٹیاں جموںوکشمیرمیں برسراقتدار آتی رہی ہیں انہوںنے عوام اور ریاست کیلئے کچھ بھی نہیں کیا بلکہ تین پارٹیوں کا نام لے کرتین خاندانوں پر ریاست کے وسائل لوٹنے اور کورپشن کا راستہ اختیار کرکے انہیں اپنی تجوریوں کی زینت بنادیا ہے۔
سجاد غنی لون اور الطاف بخاری بھی اپنی اپنی پارٹیوں کو مضبوطی کی طرف لے جانے کی دوڑمیں مصروف ہیں، ان دونوں پارٹیوں کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ یہ دونوں کچھ حلقوں میں روایتی ووٹ کاٹ کر اپنی جھولیوںمیں ڈلوانیکی پوزیشن میں ہے جبکہ محبوبہ مفتی کی قیادت میں پی ڈی پی کو جنوبی کشمیر کے کچھ حلقوں میں فی الوقت برتری حاصل ہے۔اس پس منظرمیں جموں وکشمیرمیںالیکشن منظرنامہ کس نوعیت کا اُبھرکر سامنے جلوہ گر ہوسکتاہے ،کون کس کو کاٹے گا، کون آگے نکل کر کس کو بچھاڑ کے رکھدیا گا اس کے بارے میں محض قیاس ہی کیاجاسکتا ہے کیونکہ ابھی الیکشن بہت دور ہے، اگلے سال کا مطلب مارچ… اپریل سے آگے نومبر… دسمبر بھی ہوسکتاہے۔

 

ShareTweetSendShareSend
Previous Post

عمرالیکشن نہیں لڑیں گے ؟

Next Post

آسٹریلیا نے سنسنی خیز مقابلے میں چار رنز سے کامیابی حاصل کی

Nida-i-Mashriq

Nida-i-Mashriq

Related Posts

آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اپنے آپ کو دیکھ اپنی قباکو بھی دیکھ 

2025-04-12
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

قومی دھارے سے ان کی وابستگی کا خیر مقدم 

2025-04-10
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

کتوں کے جھنڈ ، آبادیوں پر حملہ آور

2025-04-09
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اختیارات اور فیصلہ سازی 

2025-04-06
اداریہ

وقف، حکومت کی جیت اپوزیشن کی شکست

2025-04-05
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اظہار لاتعلقی، قاتل معصوم تونہیں

2025-03-29
اداریہ

طفل سیاست کے یہ مجسمے

2025-03-27
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اسمبلی سے واک آؤٹ لوگوں کے مسائل کا حل نہیں

2025-03-26
Next Post
ٹکر کی زبردست کوشش کی بدوت آسٹریلیا کی جیت

آسٹریلیا نے سنسنی خیز مقابلے میں چار رنز سے کامیابی حاصل کی

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

  • ePaper

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.