ستمبر کے وسط میں تہران میں اخلاقی پولیس کی حراست میں نوجوان خاتون مہسہ امینی کے قتل کے 40ویں دن کے موقع پر بدھ کی شام ایران کے کئی حصوں میں رات کے مظاہرے ہوئے۔
جنوب مغربی ایران کے شہر بورو گارڈ کے ساتھ ساتھ ملک کے شمال مشرق میں گورگان، مشرقی آذربائیجان کے دارالحکومت تبریز کے علاوہ شمالی ایران کے شہر بابل میں بھی بڑے مظاہرے ہوئے۔
ایرانی دارالحکومت تہران کے قریب کاراج میں احتجاجی مظاہرے دیکھنے میں آئے، مظاہرین "آمر مردہ باد” کے نعرے لگاتے رہے۔ دارالحکومت تہران کے کئی علاقوں میں رات گئے بڑے پیمانے احتجاج کیا گیا۔ جنوبی ایران کے بندر عباس میں ایک مرتبہ پھر لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔
سکیورٹی فورسز نے مغربی ایران کے شہر کرمانشاہ میں مظاہرین پر گولیاں برسا دیں۔ جب کہ تہران کے شمال میں واقع شاہین سٹریٹ پر فورسز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں ۔ ایرانی کردستان کے دارالحکومت سنندج میں سیکیورٹی فورسز کی گاڑی کو نذر آتش کردیا گیا۔
16 ستمبر کو پولیس حراست میں مہسا امینی کی موت ہوئی اور بدھ کے روز مہسا کی موت کے چالیس روز مکمل ہوگئے۔ اس موقع پر بدھ کی شام امریکی محکمہ خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ امریکہ ایرانی عوام کی حمایت کرنے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے کہ مظاہروں کو وحشیانہ طور پر دبانے کے ذمہ داروں کا احتساب کیا جائے۔
مہسا کے چہلم پر جاری بیان میں امریکی وزارت خارجہ نے جاری بیان میں کہا کہ آج ہم وزارت خارجہ اور خزانہ کی جانب سے ایک مشترکہ کارروائی کا اعلان کر رہے ہیں جس کے تحت ایران کے 14 افراد اور 3 اداروں کو پابندیوں کی فہرست میں شامل کر لیا گیا ہے۔ یہ تمام اقدامات ایرانی حکومت کو جوابدہ ٹھہرانے کے ہمارے عزم کی نشاندہی کرتے ہیں۔
امریکہ ایران میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے انصاف اور احتساب کے فروغ کے لیے کام کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ امریکہ ایرانی عوام کے پرامن احتجاج میں ان کی حمایت کرتا رہے گا۔
مہسا امینی کے آبائی شہر سقز میں بھی بڑی تعداد میں مظاہرین سڑکوں پر آ گئے تو ایرانی فورسز نے مظاہرین پر فائرنگ کی اور آنسو گیس کی شیلنگ بھی کی۔
ایرانی شہری بدھ کے روز ایرانی صوبے کردستان کے اس قبرستان میں جمع ہوئے جہاں مہسا کو سپرد خاک کیا گیا تھا۔
دوسری طرف کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے بدھ کو کہا ہے کہ ان کا ملک ایرانی حکومت کو اس کے "نفرت انگیز” رویے کے لیے جوابدہ ٹھہرائے گا۔
ٹروڈو نے مہسا امینی کی موت کو 40 روز گزرنے کے موقع پر کئے گئے اپنے ٹویٹ میں کہا اس موقع پر جب ایران کے لوگ اور دنیا بھر کے دوسرے لوگ اکٹھے ہو رہے ہیں میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ’’ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں، ہم کارروائی کے لیے آپ کے مطالبات کو سنتے ہیں‘‘
قبل ازیں ایران کے حوالے سے کینیڈا، فرانس اور جرمنی سمیت کئی ممالک کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، اجلاس کے بعد جاری بیان میں مہسا امینی کی ہلاکت کا باعث بننے والے تشدد کی شدید مذمت کی گئی۔
ایران میں کئی ہفتوں سے مختلف علاقوں میں الگ الگ احتجاجی مظاہروں جاری ہیں۔ اخلاقی پولیس نے مبینہ طور پر نامناسب سکارف پہننے کے الزام میں مہسا امینی کو حراست میں لیا تھا جس کے تین روز بعد پولیس کی حراست میں ہی 16 ستمبر کو مہسا کی پراسرار موت ہو گئی تھی۔
نارویجن ہینکاؤ تنظیم نے ٹویٹر پر کہا کہ "سکیورٹی فورسز نے سقز قصبے کے زندان سکوائر میں شہریوں پر آنسو گیس کی شیلنگ کی اور فائرنگ بھی کی۔
ایک ذریعہ نے بتایا کہ فائرنگ کے بعد درجنوں مظاہرین کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس کے علاوہ سقز قصبے میں انٹرنیٹ بھی بند کر دیا گیا۔
مہسا کی موت کے چالیس روزہ سوگ کے موقع پر ایرانی حکومت نے سقز قصبے میں سخت سکیورٹی انتظامات کر رکھے تھے۔ تنظیم نے کہا کہ ایرانی سیکورٹی فورسز سڑکوں پر تعینات تھے۔ مغربی ایران کے 8 شہروں میں بڑے پیمانے پر ہڑتال کی گئی۔
چالیس روز سے جاری ان خونی مظاہروں کے دوران مہسا امینی کے آبائی صوبے کردستان کے جنوب مشرق میں واقع شہر زاہدان میں بڑی خونریزی کا دن بھی گزرا۔ ایران ہیومن رائٹس کے مطابق اس روز 30 ستمبر کو مظاہروں میں 93 افراد مارے گئے اور پولیس کمانڈر نے ایک نوعمر لڑکی کی عصمت دری بھی کی تھی۔
ایک روز قبل منگل کو ایرانی خبر ایجنسی "تسنیم” کے مطابق نامعلوم مسلح افراد نے زاہدان میں پاسداران انقلاب کے دو اہلکاروں کو ہلاک کر دیا جس سے سیستان اور بلوچستان میں ہلاک ہونے والے سکیورٹی اہلکاروں کی کل تعداد آٹھ ہو گئی۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق، جبر کی وحشیانہ اور بے لگام مہم کے باوجود منگل کو نوجوان خواتین اور مردوں نے دوبارہ احتجاج کیا۔ جاری ویڈیو میں دیکھا جا سکتا کو میٹرو سٹیشنز پر خواتین ’’مرگ بر آمر‘‘ اور مرگ پر پاسداران انقلاب‘‘ کے نعرے لگا رہی ہیں۔