سرینگر//
وادی کشمیر میں موسم سرما کے دوران گرمی کا بندوبست کرنے کے لئے گرچہ جدید ترین آلات جیسے بجلی اور گیس پر چلنے والے مختلف قسموں کے ہیٹروں کا استعمال کیا جاتا ہے تاہم روایتی کانگڑی ہر گھر میں موسم خزاں کے اختتام کے ساتھ ہی نمودار ہوجاتی ہے اور ہر فرد کے ہاتھوں میں دیکھی جاتی ہے ۔
کشمیر کے شہر و گام میں روایتی کانگڑی کا استعمال صدیوں سے کیا جاتا ہے کانگڑی بید کی نرم ٹہنیوں سے بُنی ہوئی ایک مخصوص ٹوکری ہوتی ہے جس میں اسی سائز کی پکی مٹی کی انگیٹھی ڈالی جاتی ہے اور اس انگیٹھی میں دہکتے کوئلے ڈالے جاتے ہیں جو گرمی فراہم کرتے ہیں۔
وادی میں کانگڑی صرف ٹھٹھرتی سردیوں کا مقابلہ کرنے کا ایک موثر اور دیرینہ ہتھیار ہی نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ یہاں کئی علاقوں کے لوگوں کا روز گار بھی جڑا ہوا ہے اور وادی کے کئی علاقوں مخصوص طرز کی کانگڑیاں بنانے کیلئے بھی مشہور ہیں۔
شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ کا کلوسہ نامی ایک گاؤں کے تمام گھرانوں کا روز گار کانگڑیاں بنانے کے پیشے پر ہی منحصر ہے ۔
قریب تین سو کنبوں پر مشتمل اس گاؤں کے لوگ مرد و زن یہاں تک کہ بچوں کو بھی ان دنوں کانگڑیاں بُننے کے کام میں مصروف دیکھا جا رہا ہے ۔
کلوسہ کے۳۷سالہ شمیم احمد گنائی نامی ایک جوان نے یو این آئی کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا ’’ہمارے گاؤں کے تین سو کنبوں کے لوگ آج کل روزی روٹی کمانے کیلئے کانگڑیاں بنانے کے کام میں لگے ہوئے ہیں‘‘۔
گنائی‘ جنہوں نے سال۲۰۰۶میں گریجویشن کی ڈگری مکمل کی‘ نے کہا کہ کشمیر میں مختلف قسموں اور ڈیزائنوں کی کانگڑیاں تیار کی جاتی ہیں۔انہوں نے کہا’’کشمیر میں مختلف قسموں اور ڈیزائنوں کی کانگڑیاں تیار کی جاتی ہیں لیکن بانڈی پورہ میں تیار کی جانے والی کانگڑیاں اپنی ساخت‘بناوٹ اور پائیداری کے لحاظ سے وادی بھر میں مشہور ہیں۔
کاریگر کا کہنا تھا’’ہماری کانگڑیوں کی قسموں میں ساز دار کانگر، بائی پور کانگر،ابایا کانگر اور ڈوبل در کانگر خاص طور پر مشہور ہیں جن کی بازار میں قیمت ۲۵۰سے ۴۰۰روپے تک ہے ‘‘۔
شمیم نے کہا کہ دولہن کیلئے تیار کی جانے والی مخصوص کانگڑی جس کو یہاں ’مہرن کانگر‘ کہتے ہیں، کی بازار میں قیمت ۲ہزار سے ڈھائی ہزار تک ہوتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ یہ مخصوص قسم کی کانگڑی تیار کرنے میں ایک کاریگر کو تین سے چار دن لگتے ہیں۔
بانڈی پورہ کی کانگڑیوں کے علاوہ وادی میں وسطی ضلع بڈگام کے چرار شریف علاقے اور جنوبی ضلع اننت ناگ میں تیار کی جانے والی کانگڑیاں میں کافی مشہور ہیں۔ان کانگڑیوں کو مخصوص بناوٹ اور خوبصورتی کے باعث کافی پسند کیا جاتا ہے اور رئیس گھرانوں میں ان ہی کانگڑیوں کو دیکھا جاتا ہے ۔
کانگڑیوں کا مسکن صرف وادی کشمیر نہیں ہے بلکہ یہ یورپ کے مختلف ملکوں میں پہنچ گئی ہیں جنہیں سیاح اپنے عزیزوں کو تحفہ دینے کیلئے یہاں سے خصوصی طور پر لے جاتے ہیں۔
وادی میں بنائی جانے والی کانگڑیاں ملک کی مختلف ریاستوں میں لوگوں کے گھروں میں اسباب زینت و زیبائش کا بھی ایک اہم حصہ بن گئی ہیں۔
شمیم کا کہنا ہے کہ جب کانگڑیوں کی مانگ کا سیزن آن پڑتا ہے تو ہمارے گاؤں کے سب لوگ اسی کام میں جٹ جاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بچے بھی اس کام میں لگ جاتے ہیں کیونکہ یہ ہمارے گاؤں کے لوگوں کی روزی روٹی کا واحد ذریعہ ہے ۔
کاریگر کا کہنا تھا’’ہماری پڑھی لکھی بیٹیاں بھی اس کام میں ہمارا ہاتھ بٹاتی ہیں کیونکہ ہم تب ہی ان کی مانگ پورا کر سکتے ہیں جب گھر کے سب لوگ ہاتھ بٹاتے ہیں‘‘۔
شمیم نے کہا کہ ہمارے گاؤں میں سیزن جو ماہ ستمبر سے ماہ دسمبر تک ہوتا ہے ،میں زائد از چار لاکھ کانگڑیاں تیار کی جاتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمارا ایک مقامی تاجر سے معاہدہ طے ہوا تھا جس نے ہمیں بڑا آرڈر دیا اور کچھ رقم پیشگی بھی دی جس سے ہم کانگڑیاں بنانے کیلئے درکار کچا مواد جیسے ٹہنیاں وغیرہ خریدا۔
کاریگر کا کہنا تھا’’ہم اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرانا چاہتے ہیں لیکن محدود وسائل ہونے کی وجہ سے اکثر بچوں کو تعلیم ادھوری ہی چھوڑنا پڑتی ہے ‘‘۔انہوں نے کہا کہ تعلیم کا سفر مکمل نہ کرنے کی وجہ سے ہی ہمارے گاؤں میں سرکاری ملازموں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے ۔
شمیم احمد نے کہا کہ ہم اس پیشے سے خوش ہیں کیونکہ کم سے کم اس سے ہمارے لئے دو وقت کی روٹی کا بندوبست ہوجاتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہمارے اس قدر وسائل نہیں ہیں کہ ہم کوئی کاروبار کر سکیں۔
کاریگر کا شکوہ ہے کہ حکومت اس پیشے سے وابستہ لوگوں کی فلاح و بہبودی کی طرف متوجہ نہیں ہے ۔انہوں نے کہا’’محکمہ جنگلات بھی ہمارے اس پیشے میں رکاوٹ کا باعث بن رہا ہے خام مواد مہنگا ہوتا جا رہا ہے جس کو خریدنا ہمارے لئے مشکل سے مشکل تر بن رہا ہے لیکن حکومت کوئی اقدام نہیں کر رہی ہے ‘‘۔
شمیم نے کہا کہ ہمارے اجداد سادہ زندگی گذارتے تھے ان کی ضروریات بھی محدود ہی تھیں لیکن آج ہماری ضررویات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے اور مہنگائی آسمان چھونے لگی ہے ۔انہوں نے کہا’’بینک والے ہمیں قرضہ بھی فراہم نہیں کرتے ہیں کیونکہ وہاں ایک گارنٹر کی ضرورت ہوتی جس کا ملنا ہمارے لئے ممکن نہیں ہے ‘‘۔
شمیم نے حکومت سے اپیل کی کہ وہ کانگڑیاں بنانے والے کاریگروں کیلئے بھی ایک مخصوص اسکیم بنائے تاکہ ان کی بہبودی کی سبیل ہوسکے ۔