مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی کے مصداق کشمیر ہر گذرتے سال بجلی کے سنگین بحران سے دو چار ہورہاہے۔ ترسیلی لائنوں کی لمبائی چوڑائی میں توسیع، نئے گریڈ اور ریسونگ اسٹیشنوں کی تعمیر وتنصیب، نئے میٹرنگ نظام کی تنصیب اور دوسرے کئی ایک اقدامات کے باوجود بجلی کی ترسیل کا بُنیادی اشو جہاں آج سے کئی سال پہلے تک جہاں تھا آج بھی وہیں اٹکا ہوا ہے۔
حکومتی سطح پر آئے روز کے اعلانات ، بجلی کی سپلائی کو متواتر طور یقینی بنانے اور لوڈ شیڈنگ پر قابو پانے کی یقین دہانیاں اپنی جگہ البتہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ کشمیرمیں بجلی سپلائی کا بحران بدستور موجود ہے۔ ایک روایت یہ بھی تھی کہ سرینگر سے سرکاری دفاتر کی جموں منتقلی کے ساتھ ہی بجلی کی سپلائی لائن کا ایک بہت بڑا حصہ بھی کشمیر سے جموں کی طرف کوچ کیا کرتا تھا، دربارمو کا خاتمہ باالخیر کے تناظرمیں یہ توقع لوگ کررہے تھے کہ بجلی کا دربارمو بھی ختم ہوجائے گا اور سالہاسال کی اس سرکاری روایت ، کو اب تیاگ دیاجائے گا لیکن عوامی حلقوں کی یہ توقع دوسرے کئی معاملات کی طرح سراب ہی ثابت ہوتی جارہی ہے۔
ابھی سرما اپنے پورے قہر کے ساتھ نازل نہیں ہوا لیکن بجلی کی آنکھ مچولی اور نئے ڈیجٹل سمارٹ میٹروں کی تنصیب کی آڑمیں رہائشی بستیوں، محلوں اور کالونیوں میں ۶، ۷گھنٹوں کیلئے بجلی کی ترسیل منقطع رکھی جارہی ہے جبکہ سورج ڈھلتے ہی متعدد علاقوں میں غیر اعلانیہ اور گرڈوں کی من مرضی کے تابع کٹوتی مسلط کردی جاتی ہے۔
آنے والے دنوں اور ہفتوں میں جب سردی کا قہر اپنے پورے آب وتاب کے ساتھ نازل اور مسلط ہوگا اس وقت بجلی کا سپلائی نظام کیا ہوگا وہ متحاج بیان نہیں کیونکہ موسم سرما باالخصوص بارشوں اور برف بھاری کے ہوتے یہ سارانظام جس تیز رفتاری اور انداز میں زمین بوس ہوکر رہ جاتا ہے اور جس کے نتیجہ میں اہل وادی کو گوناگوں مشکلات اور پریشانیوں سے دو چار ہونا پڑتا ہے وہ بھی کسی سی پوشیدہ نہیں۔
روایتی انداز بیان یہ ہے کہ کشمیر میں بجلی کی کھپت اور دستیابی میں کئی سو میگاواٹ کافرق ہے۔ یہی فرق کشمیرمیں بجلی کی سپلائی میں خلل ، کٹوتی اور آنکھ مچولی کا بہت بڑا سبب بن جاتاہے ۔ لوگوں پر احسان جتلانے کیلئے پھر یہ اعلان سامنے آجاتاہے کہ شمالی گرڈ سے اضافی بجلی کی خریداری کیلئے بھاری سرمایہ کاری کی ضرورت پیش آتی ہے۔اس صورتحال پر کسی حد تک قابو پایاجاسکتا ہے اگر لوگ الیکٹرک ساز وسامان مثلاً ہیٹر، بلوور، گیزر، وغیرہ استعمال کرنا ترک کردیں۔
محکمہ بجلی کے ارباب بست وکشاہ کی جانب سے یہ روایتی بیانات مضحکہ خیز ہی نہیں بلکہ غیر حقیقی ،آمرانہ اورتحکمانہ ہیں۔ کون سرکاری دفتر یا ادارہ ہے جو موسم سرما کے دوران بلووراور ہیٹر استعمال نہیں کرتا؟ کتنے سرکاری دفاتر اور ادارے ہیں جو بجلی فیس ادا نہیں کرتے لیکن اس کے باوجود ان کی بجلی سپلائی منقطع نہیں کی جاتی ہے ، کتنی تعداد میں وادی کشمیر کے چپے چپے پر موجود تنصیبات میں جو مفت کی بجلی استعمال کررہے ہیں بلکہ یہ تنصیبات ان کچھ زمروں میں شامل ہیں جو ۷x۲۴ سپلائی سے مستفید ہورہے ہیں۔ ان تنصیبات جن میں بارکیں، مورچے، رہائشی کالونیاں وغیرہ شامل ہیں سے کوئی بجلی فیس وصول نہیں کی جارہی ہے اور نہ ہی ایسی تنصیبات کی سپلائی لائن کا ٹ دی جاتی ہے۔
جہاں کشمیر میں آبادی کو موسم سرما کے زائد از چھ مہینوں تک بجلی کی کم سپلائی ، کٹوتی اور آنکھ مچولیوں کا مسلسل سامنا کرنا پڑرہاہے اسی طرح جموں کی آبادی کو موسم گرما کی جھلستی گرمیوں کے زائد از سات مہینوں تک انہی حالات کا سامنا کرنا پڑرہاہے۔ بجلی سپلائی میں رخنہ کاعذاب کشمیر مخصوص ہی نہیں ہے بلکہ بحیثیت مجموعی پورے جموں وکشمیرپر یہ عذاب مسلط ہے۔
پیداوار کے حوالہ سے منظرنامہ پر محض ایک سرسری نگاہ ڈالی جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جموں وکشمیر کی پیداوار کا زائد از ۹۰ فیصد حصہ بیرون جموں وکشمیر ایکسپورٹ کیاجارہاہے اور اس ایکسپورٹ سے حاصل آمدنی ملک کی چند مخصوص بجلی کمپنیوں کی تجوریوں کی زینت بن رہا ہے۔
اس حوالہ سے جو کچھ نئے بجلی پروجیکٹ ہاتھ میں لئے جارہے ہیں ان پروجیکٹوں کے تعلق سے کمپنیوں کے ساتھ جو مفاہمت نامے ہوئے ہیں ان مفاہمت ناموں میں جموں وکشمیر اور اس کی آبادی کے حقو ق اور مفادات کو زرہ بھر بھی تحفظ موجود نہیں یہاں تک کہ ۱۲؍ فیصد رائلٹی کے طور بجلی سپلائی کی شق بھی اب مفاہمت ناموں کے تحت حذب کر دی گئی ہے جبکہ جموں وکشمیر کے دریائوں سے حاصل ہونے والے پانی کے چارجز بھی ’لاڈلی کمپنیوں‘ کے حق میں معاف کئے گئے ہیں۔ مفاہمت ناموں کا سرسری مطالعہ سے اور بھی کچھ امورات کا حوالہ ملتا ہے جو کمپنیوں کے حق میں تو ہیں لیکن جموں وکشمیر کو ذرہ بھر بھی فائدہ نہیں۔
یہ ایک ایسا مخصوص منظرنامہ ہے جس کے ہوتے جموں وکشمیرمیں آنے والے کئی برسوں تک بھی بجلی بحران جاری رہ سکتا ہے اور لوگوں کو بجلی کے حصول کیلئے مشکلات اور پریشانیوں سے دوچار ہونا پڑے گا۔ کیونکہ جب تک نئے پروجیکٹوں کی تنصیب مکمل ہوجائیگی اس وقت تک جہاں آبادی میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا وہیں لوگوں کی روزمرہ کی ضروریات میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا۔
پھر جس انداز اور حجم کی سرمایہ کاری کی بات کی جارہی ہے اس کی بُنیادی ضروریات میں متواتر اور مستحکم بجلی سپلائی ناگزیر ہے، ان کی ضروریات پیداوار اور کھپت میں گہرے تفاوت کے ہوتے کیسے پوری کی جائیگی ، اس سوال کے آگے ٹنل کا آخری سرا تو دور کی بات ہے پہلا نظرآنے والا سرا فی الحال تاریک دکھائی دے رہاہے۔