نئی دہلی/۲۷مارچ
اردو صحافت کے دوسوسالہ جشن کی مرکزی تقریب۳۰مارچ کو راجدھانی دہلی میںہوگی جس میں سابق نائب صدر جمہوریہ محمدحامدانصاری اور سابق مرکزی وزیراعلیٰ غلام نبی آزادبطور مہمان شریک ہوں گے ۔
نئی دہلی کے انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر میںمنعقد ہونے والی اس اہم تقریب میں جن دیگر مہمانوں نے شرکت کی منظوری دی ہے ،ان میں‘ ہندسماچار’ جالندھر کے ایڈیٹر وجے کمار چوپڑا، پدم شری پروفیسر اخترالواسع، آل انڈیا اردوایڈیٹرس کانفرنس کے صدر م۔ افضل ،ممبر پارلیمنٹ ندیم الحق، سینئر صحافی اور شاعر حسن کمال، پروفیسر شافع قدوائی اور ڈاکٹر سید فاروق کے نام قابل ذکر ہیں۔
یہاں جاری اے ک پرے س رے لے ز مے ںمعصوم مرادآبادی نے بتایاکہ تقریب میں جدوجہد آزادی کے دوران اردو صحافیوں کی عظیم قربانیوں کو بھی یاد کیا جائے گا۔ شرکائے تقریب اردو صحافت کو درپیش موجودہ مسائل اور آزمائشوں پر بھی گفتگو کریں گے ۔اس موقع پر اردو کے نایاب اور پرانے اخبارات کے نسخوں کی نمائش کا بھی اہتمام کیا جا رہا ہے ۔ اردو صحافت کی تاریخ پر ایک دستاویزی فلم بھی دکھائی جائے گی۔
تقریب کے دوران اردو کے کئی بزرگ اور نامور صحافیوں کو‘ کارنامہ حیات ایوارڈ ’ سے سرفراز کیا جائے گا۔ یہ اعزازات اردو صحافت کو وجود بخشنے والے جن صحافیوںکے نام سے منسوب کئے گئے ہیں ان میں مولوی محمد باقر، پنڈت ہری ہردت، منشی نول کشور،مولانا ابوالکلام آزاد، حسرت موہانی، مولانا محمد علی جوہر، ظفر علی خان، مولانا عبدالماجد دریابادی، محمد عثمان فارقلیط ، عبدالوحید صدیقی ،حیات اللہ انصاری ،جی ڈی چندن اور نشتر خانقاہی شامل ہیں۔اس موقع پر ایک یادگاری مجلہ کا اجرائبھی عمل میں آئے گا۔
انہوں نے مزے د نے بتایا کہ اردو صحافت نے ہندوستان میں اپنی صحافت کے آغاز کے فوراً بعد استعمار مخالف جذبات کا اظہار کرنا اور جامع قوم پرستی کو فروغ دینا شروع کر دیا تھا۔جہاں تک اردو کے پہلے اخبار کا تعلق ہے ، یہ ’جامِ جہاں نما ‘تھا جسے کلکتہ سے پنڈت ہری ہر دت نے۲۷ مارچ۱۸۲۲میں شائع کیا تھا۔ جام جہاں نما کے ایڈیٹر پنڈت سدا سکھ لال تھے ۔فرقہ وارانہ تصورات کے برعکس اردو اخبارات کا آغاز ہندوں نے کیا تھا۔ یہ بھی درست ہے کہ اردو صحافت میں غیر مسلموں کا تعاون مسلمان صحافیوں سے کم نہیں ہے ۔
اردو صحافت نے ہندوستان میں اپنی صحافت کے آغاز کے فوراً بعد غیر ملکی حکمرانی کے خلاف اپنے اختلاف کا اظہار کرنا شروع کر دیا تھا۔ دہلی اخبار کے ایڈیٹر محمد مولوی باقر نے استحصالی برطانوی حکمرانی کے خلاف دلیری سے لکھا اور۱۸۵۷کی بغاوت کے دوران حریت پسندوں کا ساتھ دیا۔
برطانوی حکومت نے اختلاف کی بلند ہوتی آواز کو دبانے کے لئے مولوی محمد باقر کو توپ کے دہانے سے باندھ کر اڑا دیا تھا۔ یہی حال ’پیام آزادی‘ کے ایڈیٹر مرزابیدار بخت کا ہوا۔باوجودیکہ اردو صحافیوں کی ہمت نہیں ٹوٹی اور وہ ملک کی آزادی کی جدوجہد میں کلیدی کردار ادا کرتے رہے ۔
معصوم مرادآبادی نے اس موقع پراردو صحافت سے دلچسپی رکھنے والوں کو دوصد سالہ تقریبات میں دل کی گہرائیوں سے مدعو کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئیے اردو صحافت کے فروغ کے لئے ہم سب مل کر کام کریں۔