’’کشمیر پر کشمیریوں کے ساتھ بات ہوگی پاکستان کے ساتھ بات کرنے کی ضرورت نہیں‘‘، جموں وکشمیریوٹی کے لیفٹنٹ گورنر منوج سنہا نے اس بات کا اظہار ایک عالمی نشریاتی ادارے بی بی سی کے ساتھ ایک خصوصی ملاقات کے دوران کیا۔
یہ موقف مرکز میں برسراقتدار وزیراعظم نریندرمودی کی قیادت میں بی جے پی حکومت کا ہے اور حکومت جب سے اقتدارمیں آئی ہے کشمیرکے سوال پر پاکستان یا اورکسی سے بات کرنے کے سوال پر اپنے اسی نظریے اور موقف پر ڈٹی ہے اور بار بار اس کا اعادہ بھی کیا جارہاہے۔ گورنر منوج سنہا نے حکومت کے اسی موقف اور نظریہ کا اعادہ کیاہے۔
مرکزکے اس موقف سے ہٹ کر کشمیرنشین کچھ قومی دھارے سے وابستہ جماعتیں مسلسل یہ مطالبہ کررہی ہیں کہ پاکستان کے ساتھ بات کرکے کشمیر کا ’مسئلہ‘ حل کرلیا جائے۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ پاکستان سے بات کئے بغیر یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا ، کشمیرمیں دہشت گردانہ واقعات کا خاتمہ نہیں ہوگا اور کشمیر میں پائیدار اور مستحکم امن قائم نہیں ہوگا۔ نظریہ کا یہ ٹکرائو اور تضاد نئی پیچیدگیوں اور سنگین مضمرات کو جنم دینے کا موجب بن رہاہے۔یہ ماننا ان سیاسی پنڈتوں کا ہے جن کا دعویٰ ہے کہ وہ حالات ومعاملات پر گہری نگاہ رکھتے ہیں اور اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ مذاکرات ہی مسئلہ کا واحد آپشن ہے اور امن ، استحکام اور ترقی کی ضمانت ہے۔
لیکن اہم سوال جس کو نظرانداز کرنے کی روش ہے وہ یہ کہ ماضی میں پاکستان کے ساتھ وزارتی سطح، سفارتی سطح پر، سیاسی سطح پر، عوام سے عوام کی سطح پر، وفود کے درمیان، بیک ۲چینلز کی وساطت سے یہاں تک کہ بعض مشترکہ دوست ممالک کی طرف سے اصرار اور سہولت کاری کا راستہ اختیار کرکے مذاکرات ہوئے، مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانے اور جن کچھ وابستہ اموارات پر اتفاق رائے بھی پایاجاتارہا لیکن بدقسمتی سے پاکستان بعد میں یوٹرن لیتا رہا، جن دوسرے امورات پر اتفاق پایاجاتا رہا ان پر عملی جامہ پہنانے کی راہوں کو یکطرفہ مصلحتوں کے تابع رکھ کر مسدود بنایاجاتارہا۔
پھر ہندوستان کی قیادت کیلئے ہر با ر اہم ترین سوال یہی رہاکہ پاکستان کے نام پر بات کریں تو کس سے؟ تاریخ اور واقعات کے تناظرمیں دیکھاجائے تو پاکستان میں زیادہ تر دور فوجی حکومتوں اور ان کی طرف سے نافذ مارشل لاء کا ہی رہا، جو بھی سویلین حکومت برسراقتدار آئی وہ اپنی مدت پوری نہیں کرسکی، البتہ ہر سویلین حکومت کی خارجہ اور داخلی پالیسیوں کا کنٹرول فوج کے ہی ہاتھ رہا ہے۔ پھر مذہب، سیاست، نظریات، خواہشات اور خوابوں کے نام پر نان سٹیٹ ایکٹروں کی بھرمار، ان کے بیانات اور سب سے بڑھ کر ان کی منفی سوچ اور معاندانہ اپروچ بھی کامیاب مذاکرات کی راہ میں مانع ہوتارہا۔
مذاکرات کا راستہ موزوں اورافضل ترین ہے۔ مذاکرات کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ جنگ اشتعال انگیزی ، درپردہ جنگ، نان سٹیٹ ایکٹروںکو میدان میں جھونکنے، دراندازی کا راستہ اختیار کرکے دہشت گردانہ سرگرمیوں کیلئے معاونتی کرداراداکرنے، ہتھیاروں کی سمگلنگ اور پھر منشیات کا سہارالے کر نوجوان نسل کو ان کی سوچ، صلاحیتوں اور توانائی کو مفلوج کرنے کی پالیسیوں کے ہوتے مذاکرات کی راگنی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ پاکستان کے پالیسی سازوں نے کشمیر کے حوالہ سے جوراستے اختیار کررکھے ہیں ا ن کے ہوتے مذاکرات ممکن نہیں البتہ جو راستے اختیار کئے جارہے ہیں ان راستوں کو مسدود بنانے ، دراندازی ، ہتھیاروں اور منشیات کی سمگلنگ کو ختم کرنے اور کشمیرکے حوالہ سے جتنے بھی نان سٹیٹ ایکٹراور ادار ے ہیں ان کی لگام کسنے پر بات چیت کے سارے دروازے کھل سکتے ہیں۔ دونوں ایک ساتھ نہیں چل سکتے ہیں۔
گورنر نے اپنے انٹرویو میں جموںوکشمیر میں بے روزگاری پر قابو پانے اور سرمایہ کاری کے حوالہ سے بھی بات کی ہے۔ کچھ غیر ملکی سرمایہ کاروں نے زائد از پچاس ہزار کروڑ روپے مالیت کی سرمایہ کاری کی پیشکش کی ہے، جب بھی یہ سرمایہ کاری مکمل ہوگی تو ان کی طفیل چھ لاکھ کے قریب بے روزگاروں کو بلواسطہ اور بلاواسطہ روزگار دستیاب ہوگا۔ فی الوقت پانچ لاکھ لوگ سرکاری ملازمت سے مستفید ہوکر روزگار حاصل کررہے ہیں۔
اس تعلق سے یہ امر بھی قابل ذکرہے کہ حالیہ چند برسوں میںنجی سیکٹرمیں حکومتی اور اس کے مالیاتی اور دوسرے اداروں کی سرپرستی اور تکنیکی امداد فراہم کرنے کے نتیجہ میں چھوٹے اور درمیانہ درجے کے یونٹ تشکیل پاتے رہے ہیں، یونٹ ہولڈر نہ صرف اپنے لئے روزگار حاصل کررہے ہیں بلکہ کاریگروں، ہنرمندوں کی ایک اچھی خاصی تعداد بھی وابستہ ہوکر روزگار حاصل کررہے ہیں۔ اس حوالہ سے خاص کردیہی خواتین کا تذکرہ کرنا بے جانہ ہوگا جو اپنے گھروں میںمختلف سکیموں سے استفادہ حاصل کرکے خود کفالت کی راہ پر گامزن ہیں، ان خواتین کا سالانہ ٹر ن اور اب کروڑوں سے تجاوز کرچکا ہے جبکہ ان کی طرف سے قائم یونٹوں میںسینکڑوں خواتین کو بھی برسرروزگار بنایا جارہاہے۔
گذشتہ تین برسوں کے دوران تیس ہزار لوگوں کو سرکاری نوکریاں فراہم کی گئی ہیں جبکہ خالی جگہوں پر تقرریاں عمل میں لانے کا پراسیس جاری ہے۔ البتہ اس تعلق سے اگر کسی بدعنوان طرزعمل کی شکایت موصول ہورہی ہے اس حوالہ سے ملوثین کے خلاف سخت کارروائی کی جارہی ہے۔