تمام تر مفروضوں سے قطع نظر کشمیر کے شمال، جنوب، مشرق ومغرب میں جہاں تک نگاہ جاتی ہے قومی پرچم ترنگا لہراتا نظرآرہاہے۔ مختلف دیہات، شہر سرینگر، ڈل جھیل اور قصبوں میں ترنگا ریلیوں کا حالیہ ایام کے دوران اہتمام کیا گیا جن میں پرچم بردار لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے حصہ لے کر اپنے جذبات کا برملا اظہار کیا۔
’ہر گھر ترنگا‘ کی اپیل وزیراعظم نریندرمودی نے کچھ روز قبل اپنے ایک پیغام میں کی، وزیراعظم کے اس پیغام کا ملک کے طول وارض میں بلالحاظ نظریات اور سیاسی اختلاف رائے کے بھر پور اور والہانہ احترام کیاگیا، کنیا کماری سے لے کر لداخ کی چوٹیوں تک اور شمال مشرقی ریاستوں سے لے کر ملک کے مغربی ساحلوں تک تب سے ترنگا لہراتا نظرآرہاہے۔ کشمیرمستثنیٰ نہیں۔
بلکہ یہ کہنا مبالغہ نہیں ہوگا کہ یہ پہلا موقعہ ہے کہ جب کشمیرمیں اس بڑے پیمانے پر ترنگا ہر گلی کوچے، عمارت، سڑک ، چوک ،نجی وسرکاری عمارتوں اور حساس اور غیر حساس تنصیبات پر لہرا رہاہے۔ اس تعلق سے کچھ ہی ماہ قبل سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے اپنے اقتدار سے بے دخلی پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب کشمیر میں کوئی ترنگا اُٹھائے نظرنہیں آئیگا۔ محبوبہ مفتی نے اس لہجہ اور انداز میں بات کیوں کی اور ترنگا کسی کشمیری کے ہاتھ میں نظرنہ آنے کی کس بُنیاد پر پیش گوئی یا قیاس آرائی کی تھی، اس بارے میں کچھ حتمی طور سے تو کہا نہیں جاسکتا البتہ یہ بات بغیر کسی تردد کے کہی جاسکتی ہے کہ محبوبہ جی کشمیر کی سیاسی اُفق ، مزاج اور نفسیات کے حوالہ سے ’طفل سیاست‘ ہی ثابت ہوئی۔
کوئی شخص کھیل کے حوالہ سے طفل ہو،سیاست کے تناظرمیں طفل ہویا زندگی کے اور کسی شعبے کے تعلق سے طفل ہو وہ ان شعبوں کی تباہی وبربادی کا موجب بن سکتا ہے ۔ کشمیر کا سیاسی جغرافیہ بے حد حساس، پیچیدہ اور مختلف معاملات کے حوالہ سے بسا اوقات ناقابل فہم نظرآتا ہے۔ اس مخصوص پس منظرمیں نفسیات اور سیاسی ترجیحات کے حوالہ سے کہاجاسکتاہے کہ محبوبہ جی نے اس مخصوص تناظر کو ملحوظ خاطرنہیں رکھا ،ان کا والد سالہاسال قبل قومی پرچم کو کشمیرمیں بلند کرچکا تھا جب وہ کشمیرکی سیاسی اُفق پرا بھی جلو ہ گر ہی ہوا چاہتے تھے۔ اپنے والد اور خاندان کے اس مخصوص کردار کے تناظرمیں محبوبہ مفتی کو کم سے کم بولنے سے قبل اس کردار کو ملحوظ خاطررکھنا چاہئے تھا لیکن تاریخ کو نظرانداز کرمحبوبہ مفتی نے سارے کشمیر کو بہ طور عفریت پیش کرکے ان کی کردار کشی کی اور ملکی رائے عامہ کے نزدیک انہیں بے اعتبار اور مشکوک قوم کے پیش کرنے کی حماقت کی۔
فی الوقت سارا کشمیر ترنگا کی لہر میں سرشار نظرآرہاہے، کیا اس مخصوص منظرنامہ کو محبوبہ مفتی کی طفل سیاست کی تصدیق وتوثیق کے طور پر تصور کیاجائے یا منہ پر زناٹے دار تھپڑ!بہتر ہے کہ محبوبہ جی خود طے کرلے کہ کشمیر کے طول وارض میں ترنگا کی یہ لہر ان کے کس ریمارک، اندازفکر اور مفروضوں پر مبنی کس اہداف کا جواب ہے۔ محبوبہ مفتی کے برعکس کشمیر کے کسی دوسرے قومی دھارے سے وابستہ سیاستدان یا سیاسی جماعت نے قومی پرچم کے بارے میں کوئی منفی بات نہیں کی اور نہ یہ دعویٰ کیا کہ ’’اب کشمیرمیں کوئی قومی جھنڈا اُٹھاتا نظرنہیںآئیگا‘‘۔
کشمیر کی کردارکشی کرنے والوں میں محبوبہ مفتی واحد اکیلی سیاستدان نہیں بلکہ اور بھی کئی سیاستدان اپنے اپنے حقیر مفادات کے حصول، تکمیل اور تحفظ کی خاطرکشمیر کی کردار کشی کرتے رہے ہیں۔ لیکن کشمیرکے ان کرداروںکو نظرانداز کیاجاتا رہا جوانہوںنے ۱۹۴۷ء ،۶۵ء ۷۱، اور پھر ۱۹۹۹ء میں اداکئے اور اُن ادوار کے حوالہ سے ان تمام قوتوں اور عناصر کی ریشہ دوائیوں کو منہ توڑ جواب دیتے رہے جو کشمیر پر اپنا تسلط چاہتے رہے ہیں۔
ہر گھر ترنگا قومی جذبے کا ہی اظہار نہیں بلکہ یہ قوم پرستی کے حوالہ سے ایک مشن بھی ہے۔ اب کی بار فرق صرف یہ ہے کہ اس جذبے اور قوم پرستی کا اظہار ملک کی آزادی کے ۷۵ء ویں سالگرہ کی مناسبت سے کیاجارہاہے۔ اس میں کسی سیاست یا کسی سیاسی نظریے کے عمل دخل کو تلاش کرنا یا کسی سیاسی مفروضے کی اختراع کی کوئی گنجائش نہیں۔ جذبات کے اس اظہار اور قوم پرستی کے اس مشن کو مناتے وقت قومی جھنڈا کی حرمت اور تقدس کا احترام ملحوظ خاطر رکھنے کی ضرورت ہے اور اس ضرورت سے ہر ایک شہری کیلئے لازم ہے کہ وہ جانکاری حاصل کرے۔
بہرحال محبوبہ مفتی اور اس کی تنظیم سے جڑے لوگوں کواب اس بات کا اعتراف کرنا چاہئے کہ قومی پرچم کے تعلق سے ان کا انداز فکر اور اپروچ غلط مفروضوں پر مبنی تھا، اپنی اس سیاسی حماقت کا تدارک کرنے کیلئے ان کے پاس یہی موزوں وقت ہے۔ ترنگا کو ہاتھ میں بلند کرکے وہ اپنی غلطی کا اعتراف کریں اوران دوہر ے راستوں سے اپنی ڈوبتی کشتی کو بچاکر ساحل تک پہنچادیں جن کشتیوں پر سوار ہونے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔