کورپشن سے صاف وپاک سماج اور انتظامیہ کی کامیاب تشکیل نہ صرف امن کا ضامن ہے بلکہ ترقیاتی عمل کو جلا عطاکرنے کی سمت میں کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔
یہ کوئی پوشیدہ امر نہیں کہ آزادی کے بعد کے تقریباً ۷۰؍برسوں کے دوران جموںوکشمیر میں کورپٹ اور طرزعمل کو روزمرہ زندگی اور معمولات کا اہم حصہ بنایا گیا، اعلیٰ سیاسی سطح اور اعلیٰ انتظامی سطح پر کورپشن، بدعنوان طرزعمل، ناانصافی اور ناجائز استحصال سے عبارت سسٹم کو نہ صرف مسلط کیاگیا بلکہ نت نئے طریقے اور حربے اختراع کرکے اس لعنت کو پروان چڑھایا جاتارہا۔
ماضی کی طرف لوٹ جائیں اور محض ایک سرسری نگاہ دوڑائی جائے تو یہ حقیقت مترشح ہوگی کہ کشمیر اور جموں دونوں صوبوں کا انتظامی،سیاسی اور معاشرتی لینڈ سکیپ میں نمایاں تبدیلی آتی رہی، اگر چہ انسداد کورپشن کے حوالہ سے قائم سرکاری اداروں کی نگاہ میں اس تبدیلی کے تعلق سے سبھی پہلو نہیں آسکے لیکن اس حقیقت سے بھی انکار کی گنجائش نہیں کہ سیاسی اور انتظامی مداخلت اور دبائو کے نتیجہ میں کورپشن اور بدعنوانیوں میں ملوث افراد کی سیاہ کاریوں کو حرف نظر کرنے کی روش اختیار کی جاتی رہی یا جن لوگوں کے خلاف کیس درج کرنے کے دعویٰ کئے جاتے رہے اور اس حوالہ سے مختلف سکینڈلوں کے انکشافات کا بھی سہارا لیاجاتارہا ان کے خلاف پرازکیوشن سطح پر ہی معاملات اتنے نرم رکھے گئے یا معاملات کو کمزوریوں کی بیساکھیوں پر مرتب کیاجاتارہا کہ عدالتوں سے ایسے مرتکبین باعزت بری ہوتے رہے۔
اس اعلیٰ سیاسی سرپرستی اور انتظامی مداخلت یادوسرے الفاظ میں مامہ بھتیجا واد کا سا طرز عمل نے جموں وکشمیر کو ملک کی دوسری بڑی کورپٹ ریاست کا درجہ حاصل کرنے میں بُنیادی کردار نبھایا۔ کورپشن اور بدعنوان طرزعمل کے حوالہ سے قصے اور داستانوں کی کوئی کمی نہیںہے۔ احاطہ کرنے بیٹھ جائیں تو جہلم کا پانی بھی غالباً کم پڑ جائے۔ لیکن یہ بھی نہیں کہ اسے قصہ پارینہ تصور کرکے حاشیہ پر رکھاجاسکے۔
بہرحال حالیہ چند برسوں باالخصوص گذشتہ ۲،۳؍ برسوں کے دوران جموںوکشمیر میں انسدادکورپشن تنظیم میں ایک نئی روح پھونکی گئی جبکہ اس تنظیم سے وابستہ حکام کو ملوثین کے خلاف قانون کے حوالوں سے کارروائی کی کھلی آزادی دی گئی اور اب بغیر کسی مداخلت کے اس تنظیم کو اپنے فرائض کی عمل آوری کا موقعہ دستیاب ہے۔
گذشتہ دو ، تین برسوں کے دوران تنظیم نے کورپشن اور بدعنوانیوں میں ملوث زائد از ۲سو،معاملات ریکارڈ کئے۔ کئی معاملات میں چارج شیٹ دائر کئے جاچکے ہیں جبکہ بہت سارے معاملات فی الوقت زیر تفتیش ہیں۔
انٹی کورپشن بیورو کی جانب سے کورپٹ اور بدعنوان اہلکاروں کو گرفت میں لانے اور سرعت کے ساتھ چارج شیٹ داخل کرنے کی کارروائیوں کو عوامی سطح پر سراہنا کی جاری ہے لیکن جو اعداد وشمارات اب تک سامنے آئے ہیں ان سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ کشمیر میں کورپشن اور بدعنوان طرزعمل جموں کے مقابلے میں زیادہ جبکہ سرینگر ضلع اس تعلق سے سرفہرست ہے۔
یہ امربھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ ترقیاتی منصوبوں کی عمل آوری کیلئے مخصوص فنڈز کاایک اچھا خاصہ حصہ کورپشن اور خرد برد کی نذر ہوتا رہا۔ کاموں کی الاٹمنٹ کیلئے نرخ نامے مقرر کئے جاتے رہے، نقدی اور جنس کی وصولی کو یقینی بنانے کیلئے ریڈ ٹیپ ازم (دفتری گھس گھس) کا پرانا حربہ بروئے کارلایاجاتارہا، اس وصولیابی کے بہت سارے حصہ دار ہواکرتے تھے۔ کورپشن اور بدعنوان طریقہ کار کے مختلف طریقے وضع کئے جاتے رہے یہاں تک کہ دس روپے مالیت کے سرکاری رسید کو دس لاکھ روپے مالیت کے رسیدوں میں بھی تبدیلی کیاجاتارہا، کشمیرمیںاس حوالہ سے ایک بدنام زمانہ، ’بوری سکینڈل ‘ اب بھی لوگوں کی یاداشت میں ہے۔
ایک زمانے یا دورمیں محکمہ امور صارفین کو انتظامیہ کے حوالہ سے کورپشن، بدعنوانیوں اور خردبرد کی ’ماں‘ قراردیا جاتا تھا جبکہ تعمیرات عامہ کے مختلف شعبوں کو مخصوص اصطلاح میں اس کی ’اولادیں‘ سمجھا جاتا تھا۔ نہ صرف ٹھیکوں کی الاٹمنٹ میں کورپشن اور حصہ داری بلکہ کورپشن میں ہاتھ رنگنے والے اگر شومئی قسمت کوئی بیورو کے ہتھے چڑھ بھی گیا تو کچھ ہی مہینوں کے اندر اندر اسکی فائل داخل دفتر کی جاتی تھی۔
لیکن اب تصویر تیزی سے بدل رہی ہے۔ اب تادیبی کارروائیاں ہو رہی ہیںجن کے ثمرات اور نتائج برآمد ہونا شروع ہوچکے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس جذبہ کو اور زیادہ مستحکم کیاجائے اور جلا بخشنے کا عمل جاری رکھا جائے۔تفتیش کے پرانے طریقہ کار کو خیر باد کہکر ہی کامیاب اور نتیجہ خیز پیش رفت ممکن بن سکتی ہے۔ اس کے باوجود یہ فرض نہیں کیاجانا چاہئے کہ کورپشن کاخاتمہ ہوگیا ہے، کورپشن اور بدعنوان طریقہ کار ہنوزجاری ہے، فرق صرف یہ ہے کہ دوسرے راستے اور طریقے اختراع کئے جارہے ہیں ، نرخ ناموں کے تعلق سے اگر بات کی جائے تو محکمہ ریونیو کے حوالہ سے ابھی بھی پردوں کے پیچھے کام ہورہاہے جس کے لئے نرخ مقررہیں۔ حالیہ ایام میں بیور و نے اس شعبہ سے وابستہ کئی اہلکاروں کو اپنی گرفت میں لایا ہے جو اس بات کا ایک اور بین ثبوت ہے کہ یہ محکمہ ابھی بھی اپنی پرانی روش اور راستے پر گامزن ہے ، اس شعبہ سے وابستہ سارے ملازم کورپٹ اور بدعنوان ہیں یہ مفروضہ درست نہیں بلکہ ملازمین کی اکثریت پاکباز اور مخلص ہے۔