سرینگر/(ندائے مشرق خبر)
لیفٹیننٹ گورنر‘ منوج سنہا نے کہا ہے کہ دفعہ ۳۷۰ کی منسوخی کے بعد جموں کشمیر میں بڑی تبدیلیاں رونما ہو ئی ہیں ۔
جمعہ کو سرینگر کے مضافاتی علاقے‘ نوگام میںایک ہسپتال کے افتتاح کے موقع پر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے سنہا نے’’گزشتہ تین برسوں کے دوران جموں اور کشمیر میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ اور میں اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ لوگ بھی ان تبدیلیوں کو محسوس کر رہے ہیں۔‘‘
لیفٹیننٹ گورنرنے دعویٰ کیا ’’جموں و کشمیر میں ہر شعبے میں بہتری آئی ہے۔ وہ دن گئے جب یہاں ہڑتال ہوا کرتی تھی، آج کے نوجوان پتھر بازی کے بجائے اسمارٹ فون (کے استعمال) کو ترجیح دے رہے ہیں۔‘‘
سنہا نے کہا کہ لوگوں میں اعتماد پیدا ہوا ہے اور اسی وجہ سے گزشتہ سات مہینوں میں جموں و کشمیر میں ایک کروڑ دس لاکھ سے زیادہ سیاحوں کی آمد ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ ’’یہاں مکمل امن ہے اور جموں و کشمیر تیزی سے ترقی کی طرف گامزن ہے اور وزیر اعظم کی وجہ سے جموں و کشمیر نیا کشمیر بن رہا ہے۔‘‘
اس دوران دفعہ ۳۷۰ کی منسوخی کے تین سال مکمل ہونے پر وادی میں آج حالات معمول پر رہے ۔ گرچہ سرینگر اور کچھ دوسرے علاقوں میں اضافی سکیورٹی اہلکار تعینات کئے گئے تھے ‘ لیکن کہیں سے کسی ناخوشگوار واقعہ کی کوئی اطلاع نہیں ملی ۔
وادی بھر میں آج دکانیں اور بازار معمول کے مطابق کھلے رہے جبکہ سرکاری دفاتر اور تعلیمی اداروں میں بھی معمول کی سرگرمیاں جاری رہیں ۔
اس دوران جموں کشمیر پولیس نے جمعہ کو کچھ نیشنل کانفرنس (این سی) اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے رہنماؤں کی گھروں میں نظربندی کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے انہیں ’مکمل طور پر بے بنیاد‘ قرار دیا۔
ایک بیان میں پولیس ترجمان نے کہا’’یہ جھوٹی خبریں چل رہی ہیں کہ گپکار روڈ میں این سی اور پی ڈی پی کے کچھ رہنماؤں کو گھر میں نظر بند کر دیا گیا ہے، یہ خبر مکمل طور پر بے بنیاد ہے‘‘۔
تاہم، پولیس نے مزید کہا کہ دہشت گردانہ حملوں سے متعلق بعض اطلاعات کے پیش نظر گپکار روڈ پر کچھ جگہوں پر اضافی اہلکار تعینات ہیں۔
پولیس بیان میں کہا گیا ہے ’’محبوبہ مفتی نے دوپہر کے قریب اپنے پارٹی ہیڈ کوارٹر کا دورہ کیا اور ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے دوپہر کو درگاہ حضرت بل پر حاضری دی اور شالیمار میں اپنے دوست کے گھر گئے۔‘‘
پولیس نے میڈیا کو بھی مشورہ دیا کہ وہ خبریں شائع یا نشر کرنے سے پہلے حکام سے ان کی تصدیق کریں۔
بیان میں کہا گیا ہے’’جموں و کشمیر پولیس ایک مکمل پیشہ ور پولیس فورس ہے اور اپنے فرائض سے بخوبی واقف ہے‘‘۔
قبل ازیں جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس نے ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ ’’ڈاکٹر فاروق عبداللہ کو نوائے صبح سے واپس آنے کے بعد گھر میں نظر بند کر دیا گیا ہے جہاں انہوں نے پہلے ایک میٹنگ کی صدارت کی تھی‘‘۔
اس نے مزید کہا’’ہم اپنے ان حقوق کیلئے پرامن طور پر لڑیں گے جو ۵ اگست ۲۰۱۹ کو ہم سے غیر قانونی، غیر آئینی اور غیر جمہوری طریقے سے چھین لیے گئے تھے‘‘۔
فاروق عبداللہ کی گھر میں نظربندی کی خبر پر ردعمل دیتے ہوئے نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے کہا’’ایسا لگتا ہے کہ انہیں کسی مجبوری میں اس ٹرک کو گیٹ کے باہر رکھنا پڑا ہے کیونکہ یہ ایک بے ہودہ حرکت ہے (مکمل طور پر غیر قانونی ہونے کے علاوہ)‘‘۔
عمرکاکہنا تھا’’وہ دفتر گئے، نماز پڑھنے گئے، تعزیت کیلئے گئے۔ ٹرک اس وقت پہنچا جب ان کے پاس آج جانے کے لیے کوئی اور جگہ نہیں تھی۔ احمق!!‘‘
۵؍اگست۲۰۱۹ کو، مرکزی حکومت نے جموں و کشمیر کے لوگوں کو خصوصی حقوق دینے والے آرٹیکل ۳۷۰ کو ختم کر دیا اور خطے کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جموں و کشمیر اور لداخ۔
اس اقدام کے ساتھ، حکومت کا مقصد لداخ سمیت پورے جموں و کشمیر خطے کی ترقی کرنا ہے۔ روزگار کے ذرائع پیدا کرکے، سیاحت کے شعبے میں بہتری لاکر اور صنعتی شعبے میں سرمایہ کاری کرکے، حکومت کا مقصد جموں و کشمیر کی معیشت کو مضبوط کرنا ہے۔