ورک کلچر مردہ لاش کی طرح زمین پر پڑا رہے تو تمام تر اُمیدوں، توقعات اور فرائض منصبی کی انجام آوری کا جنازہ برآمد ہونا غیر فطری نہیں۔
جموںوکشمیر میں ورک کلچر مردہ ہے یہ کوئی پوشیدہ امر نہیں، کچھ حلقے اس نوعیت کے کلچر کو دفعہ ۳۷۰؍ اور خصوصی پوزیشن کی مرہون منت تصور کرتے رہے ہیں جو تصور درست تجزیہ پر مبنی نہیں بلکہ تلخ ترین حقیقت یہ ہے کہ اس کلچر کی بُنیاد ۱۹۴۷ء سے یہاں برسراقتدار حکومتوں نے رکھی، کورپشن اور بدعنوان طرز عمل اور فرسودہ نظریات اور انداز فکر وعمل پر چلتے اس کلچر کو پروان چڑھایا جاتارہا، ووٹ بینک کی سیاست کا ناقابل تنسیخ حصہ بنایا گیا، کنبہ پروری، اقربانوازی اور منظور نظری کو حکومتوں اوران حکومتوں میں شامل وزراء نے اپنا چھٹا کلمہ کادرجہ عطاکیا۔
۷۵ سال کا عرصہ کسی بھی حوالہ سے مختصر نہیں، عالمی سطح پر پیش آمدہ تبدیلیوں اور طرزعمل کا جائز لیاجائے تو ملکوں اور قوموں نے چاند تاروں پر اپنی اپنی کمندیں ڈالنے میںکایابیاں حاصل کیں، خود ملک کی دیگر ریاستوں نے ترقی کے نئے نئے منازل طے کئے، محنت اور لگن سے کم وبیش ہر شعبہ زندگی کے حوالہ سے پیش رفت کی، لیکن جموں وکشمیرمیں محض چند ایک مخصوص شعبوں کے سوا زندگی اور انتظامیہ کے حوالہ سے کسی بھی دوسرے شعبے میں کوئی پیش رفت حاصل نہیں کی۔
مثالیں درجنوں میں نہیں بلکہ سینکڑوں میں ہیں جن سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہاں ہماری جموںوکشمیرمیںورک کلچر کاکہیںکوئی ایڈریس دستیاب نہیں۔ زیر زمین پانی، بالا زمین پانی، ندی نالے، جھلیں، گلیشئر ، دریا کہاں پانی نہیں لیکن ۷۵ ؍سال گذرنے کے باوجود لوگوں کی کثرت پینے کیلئے پانی سے محروم ہے۔ جنگلات بہتات میں ہے لیکن سمگلنگ کی سیاسی سطح پر سرپرستی اور جنگل مافیاز کی معاونت نے جموں وکشمیرمیں جنگلات کے مجموعی رقبے کو سکڑ کے رکھدیاہے۔ جموںوکشمیر کے اس سبز سونے کی لوٹ اس مدت کے دوران اپنے انتہا تک پہنچائی گئی، کبھی کسی حکمران کے دور میں منظور نظر سیاسی وفادار فارسٹ لیسیوں کے ہاتھوں تو کبھی کسی دوسرے حکمرانوں کے دورمیں جنگل سمگلروں کی سرپرستی کرکے، قدرتی معدنیات اور ذخائر کی کوئی کمی نہیں لیکن مردہ ورک کلچر کی مرہون منت ان قدرتی وسائل کا بھی ناجائز استحصال کیاجاتارہا، ایک سابق گورنر بھگوان سہائے کی قیادت میں اعلیٰ اور بااختیار کمیٹی نے جموںوکشمیرمیں دستیاب قدرتی ذرائع اور قدرتی وسائل پر مبنی صنعتوں اور کارخانوں کے قیام کا منصوبہ اور خاکہ مرتب کرکے پیش کیا گیا لیکن ان سفارشات کو کسی خاطرمیں نہیںلایاگیا۔ یہ محض چند اشارے ہیں۔
یہ مردہ ورک کلچر کا ہی ایک تسلسل ہے کہ جن لوگوں کو مختلف زمروں کے تحت سرکاری ملازمت میںلیاگیا وہ ان جگہوں اور علاقوں میں اپنے فرائض انجام دینے کیلئے تیار نہیں جن علاقوں کے نا پر انہیں سرکاری ملازمت ملی۔ ان ملازموں کی یہ آناکانی آج کی نہیں بلکہ اس کی عمر بھی ۷۵ ؍سال کی ہوگئی۔ اس ضمن میں کشمیرمیں جموں خطے سے تعلق رکھنے والے مختلف زمروں سے وابستہ ملازمین کو تعینات کیا گیا جن زمروں کا واسطہ شیڈول کاسٹ، شیڈول ٹرائب، اے ایل سی، آر بی اے وغیرہ سے ہے۔
اس مخصوص تناظرمیں جموںوکشمیر ایڈمنسٹریشن نے چند گھنٹے قبل نیا حکمنامہ جاری کردیاہے جس میں ان مخصوص زمروں کے تحت ملازمین کے بارے میں کہاگیا ہے کہ ایسے بہت سارے ملازمین اپنی مقرہ جگہوں پر فرائض انجام نہیں دے رہے ہیں حالانکہ ایسے لازمین کی تقرری اس بُنیاد پر عمل میںلائی گئی ہے کہ وہ ان مخصوص علاقوں میں کم سے کم سات سال تک فرائض انجام دیں گے جن کے نام پر انہیں ملازمت دی گئی ہے۔ حکمنامہ میںمحکموں کے سربراہوں سے کہاگیا ہے کہ وہ ان ملازموں کے حلف ناموں کی تصدیق کریں کہ انہوںنے مقررہ مدت تک فرائض انجام دئے ہیں اور جنہوںنے ایسانہیں کیا ہے انہیں ہدایت دی گئی کہ وہ ان علاقوں میں اپنے فرائض انجام دیں جن علاقوں کے نام پر انہیں ملازمت دی گئی ہے۔ سربراہوں کو ان ہدایات پر سختی سے عملی جامہ پہنانے کیلئے کہاگیاہے۔
لیفٹنٹ گورنر کی قیادت میں جموں وکشمیر ایڈمنسٹریشن کا یہ اقدام بُنیادی طور سے ورک کلچر کی ہی طرف واضح اشارہ کررہاہے تاکہ لوگوں کو بہتر گورننس دستیاب رہے۔ اگر چہ حالیہ چند برسوں کے دوران ورک کلچر کے احیاء اور بہتر گورننس کی سمت میں متعدد اقدامات اُٹھائے گئے ہیں لیکن ابھی ان اقدامات اور ان پر عمل آوری کو مزید چست، فعال اور متحرک بنانے کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔
بے شک سکیورٹی کا مسئلہ موجود ہے لیکن یہ بھی زہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ فرداً فرداً سکیورٹی کا بندوبست ممکن نہیں۔ پھر کشمیر میں اس منظرنامے کے ہوتے مقامی ملازم اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ وہ سکیورٹی کا بہانہ نہیںبنارہے ہیں اور نہ اپنی تعیناتی کی جگہوں سے کسی اور محفوظ جگہ اپنی تعیناتی کے لئے سڑکوں پر نعرہ بازی کرتے ہیں۔یہ لاڈلہ کلچر ہے جس کا اب قصہ مختصر کرنا ہوگا۔ ورک کلچر کا احیا ء کئی اعتبار سے ناگزیر ہے کیونکہ جموںوکشمیر بحیثیت مجموعی ابھی کئی اہم شعبوں میں بچھڑا ہے اور اس بچھڑے پن کی بیخ کنی کیلئے یہ ضروری ہے کہ فعال اور متحرک ورک کلچر کا قیام ممکن بنایاجاسکے تاکہ جموں وکشمیرکے مختلف خطوں کی آبادی کو یہ محسوس ہوکہ وہ ان اقدامات اور سکیموں سے مستفید ہورہے ہیں جن کو عملی جامہ پہنانے کیلئے حکومت وضع کرتی جارہی ہے۔