سکیورٹی ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ جموں وکشمیر میںدہشت گردی بے چہرہ کے روپ میں اُبھر رہی ہے جو بہت بڑا چیلنج ہے جبکہ سرحد کے اُس پار …افغانستان اور پاکستان سے منشیات کی سمگلنگ دوسرا بڑا چیلنج ہے جس کا براہ راست تعلق دہشت گردی سے ہے جس کو عام اصطلاح میں نارکوٹیررزم کہاجارہاہے۔
زائد از تیس سال سے کشمیر اس عذاب کو سہ رہا ہے اور جوجھتا چلاآرہاہے۔ان گذرے برسوں میںیہ منظرنامہ قدم قدم پر روپ بدلتا رہا اور ہر قدم کے بعد نئے خدوخال کے ساتھ عذاب بن کر مسلط کیاجاتارہا۔ گولیوں کی گن گرج سے چھینا جارہا سکون، کٹی گردنیں اور کھنڈرات کے مناظر ابھی چشم بینا دیکھ ہی رہی تھی کہ منشیات کا عذاب مسلط کردیاگیا۔ ہر سال کروڑوں روپے مالیت کی منشیات سرحد کے اُس پار سے کشمیر کی طرف سمگل کی جارہی ہے جس منشیات کا مرکز افغانستان اور پاکستان ہے۔
محتاط اندازہ کے مطابق کشمیر میں حالیہ ایام تک چھ لاکھ افراد منشیات کی لت میں مبتلا ہوچکے ہیں ۔ لت میں مبتلا افراد کی عمریں ۱۷؍ اور ۳۲؍ سال کے درمیان ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ نشانہ کشمیر میں کون ہے، نوجوان، حال اور مستقبل کے معمار، نشے میں مبتلا کرکے آخر کس مکروہ مشن اور ایجنڈا کو منطقی انجام تک پہنچانے کی پیہم کوشش کی جارہی ہے ۔ کشمیر کا نوجوان نشے میں دھت ہوکر زمین پر پڑارہے اور اپنے گردوپیش کے فہم سے بے اعتنا رہے اور اپنے حقوق اور مفادات کے لئے آواز بھی بلند نہ کرپائے کیا یہی مکروہ مشن اور ایجنڈا بادی النظرمیں محسوس نہیں ہورہاہے۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جو بحیثیت مجموعی کشمیر کی سول سوسائٹی کودعوت غوروفکر دے رہاہے۔ یہ سوال کسی مخصوص فرد سے تعلق نہیں رکھتا ہے بلکہ اس کی حیثیت اجتماعی ہے۔
کچھ عزائم عیاں ہوتے ہیں جبکہ زیادہ تر پوشیدہ رکھے جاتے ہیں۔ اوسط کو ایسے معاملات کا فہم نہیں ہوتا بلکہ وہ ایسے معاملات کو یونہی سرسری تصور کرکے نظرانداز کرتے ہیں۔ لیکن یہی نظراندازی قوموں، سماجوں اور پھر ملکوں کی سالمیت ، وحدت اور بقاکے حوالہ سے سنگین ترین نتائج کے ساتھ نازل ہوکر بربادی اور تباہی مچا دیتے ہیں۔ عزائم کی تکمیل اور عوام کی توجہ ان کی طرف مبذول کرکے انہیں معقولیت کی سندیں تفویض کراکے ان کے پیچھے درپردہ ہاتھ اور چہرے خوشنما نعرے بھی اختراع کرتے ہیں۔ جو لوگ کشمیر کی ماضی قریب اور عصری تاریخ پر گہری نگاہ رکھتے ہیں وہ ایسے معاملات کا بہتر فہم رکھتے ہیں اور حاصل نتائج کے بارے بھی اچھی معلومات رکھتے ہیں۔
سکیورٹی ایجنسیاں جن چیلنجوں کی بات کررہی ہیں وہ چیلنج یونہی ہوا میں نہیں ہیں بلکہ زمین پر موجود ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کے حصول کی بدولت البتہ ان کا رنگ وروپ اور خدوخال بدل دیاجارہاہے۔ ڈرون کا بڑھتا استعمال اس تعلق سے خاص طور سے قابل ذکر بھی ہے اور توجہ طلب بھی ۔ اب منشیات اور جدید طرز کے ہتھیار ڈرون کی مدد سے گرائے جارہے ہیں۔ اس ٹیکنالوجی کے نتیجہ میں سرحدوں پر نصب کھاردار تار اور لکریں اب بے معنی اور بے وقعت رہ گئی ہے۔
سکیورٹی ایجنسیاں جس بے چہرہ دہشت گردی اور نارکوٹیررزم کے تعلق سے ابھر ے نئے چیلنجوں کا دعویٰ کررہی ہیں ان چیلنجوں کا تعلق انہی اشو ز سے ہے۔ان چیلنجوں سے عہدہ برآں ہونے کیلئے جدید علوم اور جدید ترین ٹیکنالوجی کا حصول ناگزیر بن رہا ہے وہیں سوسائٹی کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان چیلنجوں کا سامنا کرنے کیلئے اپنا اشترا ک عمل دراز کریں۔کیونکہ اشتراک اور تعاون کے بغیر درپیش چیلنجوں کا نہ توڑ ممکن ہے اور نہ ہی کسی کامیابی کی توقع کی جاسکتی ہے۔
سیاسی، سفارتی اور خارجی محاذوں پر بھی ان چیلنجوں کے بارے میں رائے عامہ منظم کرنے کی ضرورت پہلے سے زیادہ اشد محسوس کی جارہی ہے۔ جنوبی ایشیاکے اس مخصوص خطے میںدہشت گردی کی پشت پناہی کے کئی مراکز اور لانچنگ پیڈ موجود ہیں ۔ افغانستان ان میں سے خاص طور سے قابل ذکرہے۔افغانسان کی سرزمین پر کثیر ملکی دہشت گرد موجود ہیں،یہ ایک تلخ حقیقت ہے جس سے انکار کی گنجائش نہیں۔ افغانستان سے امریکی انخلاء کے شرائط میںدوحہ میں جو مذاکرات ہوئے اور سمجھوتے طے پائے تھے ان میں ایک اہم یہ تھا کہ طالبان اپنی سرزمین پر غیر ملکی دہشت گردوں کو ٹھکانہ فراہم کرنے او ر افغان سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ لیکن افغانستان کی طالبان حکومت اس معاہدہ کی خلاف ورزی کی مرتکب ہوتی رہی جس کا اہم ترین ثبوت القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کی موجودگی جواب اس کی ہلاکت پر منتج ہو ئی ہے بڑھ کر اور کیا ہوسکتا ہے۔
یہ امر بار بار واضح کیاجاتارہا ہے کہ دہشت گردی کسی معاملہ یا نظریاتی مسئلہ کا حل ہے اور نہ ضامن بلکہ یہ راستہ تباہی اور بربادی کی ہی طرف جاتا ہے۔ بہتر اور موزوں آپشن مذاکرات ہے، جن مذاکرات کو آئینی حدود میںرہ کر اور آئین کی روشنی میں عملی جامہ پہنایاجاسکتاہے۔ دُنیا کے کئی خطے ایسے ہیں جہاں دہشت گردی سالہاسال سے جاری ہے۔ ان خطوں میں کئی ممالک سیاسی اور عسکری محاذوں پر سرگرم بھی اور معاونت بھی فراہم کررہے ہیں لیکن ان خطوں کی تباہی، پناہ گزینوں کی آمدورفت، زندگی کی سانسیں برقرار رکھنے کی جدوجہد اور اب تک لاکھوں افراد کی ہلاکت اس بات کو واضح کررہی ہے کہ مذاکرات ہی واحد اور قابل عمل آپشن ہے۔