دس ضلعوں پر مشتمل وادی کشمیر کی سیاسی اُفق اپنی تاریخ کے ایک ایسے مرحلہ میں داخل ہوتی نظرآرہی ہے جس کا نہ کہیں پہلا سرا دکھائی دے رہا ہے اور نہ ہی آخری۔ یہ منظرنامہ مکافات عمل کا ثمرہ بھی نہیں قرار دیاجاسکتا ہے بلکہ اس منظرنامہ کو خود سیاسی کلا کاروں،خودساختہ قد آور لیڈروں ، ان کے قول وفعل میں متواتر تضادات، جذبات اور احساسات کے ساتھ دانستہ کھلواڑ ، گمراہ کن جذباتی نعروں کا سہارا ، اپنے اپنے مخصوص مفادات کا تحفظ ، ہوس اقتدار اور تحفظ اقتدار کی دوڑ میں ایک دوسرے پر سبقت لینے اور چوغے بدلنے کا راستہ اختیار کرکے دوسرے غیر متعلقہ سیاستدانوں، جن کا کشمیر کے حوالہ سے اپنا کچھ بھی دائو پر نہیں ہوتا، کے ساتھ شراکت داری اور یکطرفہ سمجھوتوں اور معاہدوں کا ہی مرہون منت خیال کیا جارہاہے۔
آج کی تاریخ میں یہی منظرنامہ اپنی مکمل ساخت اور پورے خدوخال کے ساتھ اُبھر کرجلوہ گر ہے۔ گذشتہ کچھ سالوں کے دوران وادی نشین سیاست دانوں کی سرگرمیوں، بیانات، لہجہ ، انداز فکر وعمل، معاملات کے حوالے سے اپروچ اور سب سے بڑھ کر ایک دوسرے کے تئیں معاندانہ، حسد ونفرت، سیاسی تعصب اور بالادستی سے عبارت طرزعمل کا محض سرسری جائزہ لیاجائے تو یاسیت ہی یاسیت محسوس ہورہی ہے جبکہ صدمات کی ایک نہ ختم ہونے والی داستان بھی اپنے پورے حجم کے ساتھ عصری تاریخ کا ان مٹ حصہ بن رہی ہے۔
ہر حساس اور غیر حساس اشو پر ذومعنی لفاظیت، لنگڑی دلیلوں کو پیش کرکے راہ فرار، خود کو دودھ کا دھلا جتلا کر دوسروں کی طعنہ زنی اور کردار کشی، ماضی کے رو ل اور کردار کے حوالہ سے تنقید اور غلاظت ، نظریہ بالادستی کے تعلق سے ضد اور ہٹ دھرمی، ان سبھوں کا شیوہ بن چکا ہے۔ سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کا یہ انداز فکر اور اپروچ بحیثیت مجموعی کشمیراور کشمیری عوام کو آخر کس راستے پر گامزن کرکے ان کیلئے ’’لمحوں کی خطا صدیوں کی ایک نئی سزا‘‘ میں تبدیل ہوجائیگی کچھ کہا تو نہیں جاسکتا البتہ اس سزا کا حتمی تصورہی رونگٹے کھڑا کردینے کیلئے کافی ہے۔
کچھ سیاسی پارٹیوں سے وابستہ کچھ ایک لیڈران ایک دوسرے کی ’چھولی کے پیچھے‘ کے کیڑے تلاش کرتے رہتے ہیں اور ایک دوسرے کی معمولی سی آہٹ پر قئے کی مانند اپنے معاندانہ سوچ اور ردعمل کو زبان دینے کی ٹوہ میں ہوتے ہیں ۔ ماضی کے رول اور کردار کے حوالہ سے اپنے آج کے اپنے مخالفین کو الف ننگا کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں لیکن اپنے بارے اور اپنے رول اور کردارکو اُس دور کے حوالہ سے نظرانداز کررہے ہیں جب وہ ایک ہی سیاسی چھت میں بیٹھ کر سیاہ کاریوں اور لن ترانیوں میں باہمی شراکت دار ہواکرتے تھے۔
المیہ یہ ہے کہ ہر پارٹی… نیشنل کانفرنس، اپنی پارٹی، پی ڈی پی ، پیپلز کانفرنس اور ان پارٹیوں سے وابستہ لیڈر شپ کا اپنا اپنامخصوص اور منفرد نریٹو تو ہے جن نریٹوز کو وہ۷x۲۴ پیش کرکے آگے بڑھانے کی کوشش کررہی ہے جبکہ ان نریٹوز کو عوامی تائید وحمایت حاصل کرنے کیلئے نئے نئے پاپڑ بھی بیلتے نظرآرہے ہیں۔ لیکن کشمیر کو جس نریٹو کی ضرورت ہے وہ نریٹو کہاں ہے؟ بحیثیت مجموعی جموں وکشمیر یوٹی اور مستقبل کے تعلق سے ریاستی درجہ کی بحالی کے حوالہ سے نریٹو کہاں ہے؟ جموں جاکر ایک نریٹو پیش کیاجارہاہے اور کشمیرمیں کچھ دوسرا ، کیا یہ سیاسی منافقت سے عبارت نہیں؟ کیایہ مختلف مگر باہم متضاد نریٹو جموںوکشمیر کی جغرافیائی اور علاقائی وحدت اور سالمیت کیلئے سم قاتل نہیں؟ کیا یہ معاندانہ سیاسی اپروچ اور اس حوالہ سے حصول اقتدار کی چاہت اور دوڑ ایک اور تقسیم کی جانب اشارہ نہیں!
لوگوں کے مجموعی مفادات اور حقوق کے تحفظ کیلئے کیوں جموںاورکشمیر کے سیاسی چہرے ایک صف پر یک جان دو قالب نہیں۔ البتہ جموں کی سیاسی افق کے تعلق سے جموں نشین سیاسی جماعتوں کا جموں کے مجموعی مفادات کے حوالہ سے اپروچ اور نظریہ تقریباً یکساں ہے اگر چہ وہ جماعتیں بھی ایک دوسرے کی مخالفت میں بیان بازی کا ہی راستہ اختیار کررہی ہیں لیکن وہ اندا زاور لہجہ نہیں جو کشمیر نشین سیاستدانوں کا پاکستان کے سیاستدانوں کی زبان اور طرز پر اب وطیرہ بن چکا ہے۔
بدلتے حالات، بدلتی ترجیحات، بلدتی سیاسی فضا، زمینی حقائق میںتیزی سے آرہی تبدیلیاں اور بہت کچھ پر اگر سیاسی قیادت کے کسی بھی دعویدار کی گہری نگاہ اور توجہ نہیں تو ایسے دعویدار کے بارے میں یہی عمومی تاثر ہوسکتاہے کہ وہ قوم اور ملک کیلئے نقصاندہ ہے۔ کیونکہ قیادت کا جو دعویدار لوگوں کی صحیح راہنمائی نہیں کرسکتا، وقت کے نبض کا ٹھیک طر ح سے فہم کی صلاحیت سے محروم ہے یا اس کا فقدان ہے، وہ بھروسہ اور اعتماد کے لائق نہیں بلکہ ایسے دعویدار کو’بکائو‘ کے زمرے میں ہی شمار اور تصور کیاجاسکتاہے۔
کشمیرکی سیاسی اُفق پر موجود یہ سیاسی اونٹ آنے والے دنوں ہفتوں میں کس کروٹ بیٹھ جائے اس پر نگاہ تورہے گی لیکن فی الوقت جن مسائل سے عوام جھوج رہے ہیں یا کچھ مفاد پرست عنصر اور قوتیں کشمیرکے حوالہ سے جو فضا برپا کرنے کی مسلسل کوششیں کررہی ہیں ان کو ایڈریس کرنے کی ضرورت ناگزیر بن رہی ہے لیکن ان آگ برستاے اشوز کو شعبدہ بازی سے عبارت شعلہ بیانیوں کے سہارے ایڈریس کرنا ممکن نہیں۔