’جموںکشمیر کے دور دراز علاقوں میں طبی و نیم طبی عملے کی کمی کا مسئلہ راتوں رات حل نہیں کیا جا سکتا ہے ‘
بارہمولہ//
وزیر تعلیم سکینہ ایتو نے کہا ہے کہ موسم کی پیش گوئی اور والدین کی رائے کے پیش نظر موسم گرما کے وقفے کے بعد اسکول کے اوقات میں تبدیلی سے متعلق فیصلے کا جائزہ لیا جائے گا۔
بارہمولہ میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے سکینہ ایتو نے ہونے والی تکلیف کو تسلیم کیا لیکن ابتدائی فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے شدید گرمی کو بنیادی وجہ قرار دیا۔
ان کاکہنا تھا’’ہم شکر گزار ہیں کیونکہ ہم سب طویل عرصے سے بارش کے لیے دعا کر رہے تھے۔گرمی کی لہر اس سطح پر پہنچ چکی تھی جس کا مجھے یقین ہے کہ کشمیر نے پہلے شاذ و نادر ہی تجربہ کیا ہے۔شکر ہے کہ موسم نمایاں طور پر بدل گیا ہے‘‘۔
وزیر تعلیم نے مزید کہا کہ صبح سویرے کا شیڈول خالصتاً طلباء کو گرمی سے متعلق تکلیف سے بچانے کے لیے نافذ کیا گیا تھا جبکہ اس بات کو یقینی بنایا گیا تھا کہ ان کا تعلیمی کیلنڈر متاثر نہ ہو۔ ان کاکنا تھا’’ہمارا ارادہ اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ ان کی تعلیم متاثر نہ ہو۔ چونکہ تعلیمی سیشن پہلے ہی تبدیل ہو چکا ہے ، اس لیے ہم مزید خلل کو کم کرنا چاہتے تھے‘‘۔
ایتو نے یہ بھی کہا کہ موسم میں بہتری اور عوام کے تاثرات کے پیش نظر حکومت اسکول کے اوقات کار پر دوبارہ غور کرنے کیلئے تیار ہے۔ انہوں نے کہا ’’ہم اس بات کو یقینی بنانے کیلئے ہر ممکن کوشش کریں گے کہ طلباء کی تعلیم بغیر کسی رکاوٹ کے اور سکون کے ساتھ جاری رہے‘‘۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا’’کشمیر میں موسم سرما سخت ہوتا ہے ، ہمارے ۲۸ہزار سکول ہیں ہر سکول میں اے سی اور ہیٹنگ سسٹم نصب کرنا ممکن نہیں ہے لہذا ہم سرمائی تعطیلات کو منسوخ نہیں کر سکتے ہیں‘‘۔انہوں نے کہا’’جموں و کشمیر امریکہ نہیں ہے ، یہاں موسم کے مطابق چلنا پڑتا ہے ۔‘‘
جموںکشمیر کے دور دراز علاقوں میں طبی و نیم طبی عملے کی کمی کو ایک طویل مدتی اور دیرینہ مسئلہ قرار دیتے ہوئے سکینہ ایتو‘جو وزیر صحت بھی ہیں نے کہا کہ ’’اسے راتوں رات حل نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
ایتو نے طبی عملہ کی کمی کے مسئلہ کو تسلیم کرتے ہوئے وضاحت کی ’’آپ ایک سال میں معاملات ٹھیک ہونے کی توقع نہیں کر سکتے۔ (گزشتہ) چھ برسوں سے نہ ڈاکٹر تھے، نہ طبی عملہ اور نہ ہی (طبی مراکز میں) مناسب انفراسٹرکچر۔ ان مسائل کو حل ہونے میں وقت لگتا ہے۔‘‘
موصوفہ نے دعویٰ کیا کہ موجودہ حکومت، جس کی قیادت عمر عبداللہ کر رہے ہیں، بحران سے نمٹنے کے لیے سنجیدہ اقدامات اٹھا رہی ہے، خاص طور پر صحت کے شعبے میں طبی عملہ کی کمی کو دور کرنے کی سنجیدہ کوششیں کی جا رہی ہیں۔
وزیر تعلیم کے مطابق ان کی حکومت نے ڈگری ہولڈرز کو دور دراز علاقوں میں طبی خدمات انجام دینے کے لیے ۳۰۹تقرریوں کے احکامات جاری کیے ہیں۔ اس کے علاوہ حال ہی میں صحت کی دیکھ بھال کی فراہمی کے فرق کو مزید پر کرنے کیلئے۱۱۱مزید تقرریاں انجام دی گئی ہیں۔ انہوں نے ماہر ڈاکٹروں کی بھرتی پر بھی روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ ’’سروس سلیکشن بورڈ کے ذریعے کنسلٹنٹ کی سطح پر تقرریوں میں بھی پیشرفت ہوئی ہے اور انہیں موثر طریقے سے تعینات کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔‘‘
تاہم ایتو نے اعتراف کیا کہ بنیادی ڈھانچے میں اپ گریڈ کے باوجود نئی پوسٹوں کی تخلیق اور ضروری سہولیات خاص کر طبی آلات، طبی معاونین، اور عملے کی فراہمی کافی پیچھے ہے۔ انہوں نے کہا’’عمارتیں تیزی سے تعمیر کی گئیں، لیکن ان میں بنیادی طبی آلات اور افرادی قوت کی کمی ہے۔ ہمیں اب ان کوششوں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔
وزیر تعلیم نے تمام اسٹیک ہولڈرز سے نظام میں بہتری کے لیے مل جل کر کام کرنے کی اپیل کرتے ہوئے’’ہمیں صحت کی دیکھ بھال کی فراہمی کو مضبوط بنانے کیلئے میڈیا، عوام اور تمام محکموں سے تعاون کی ضرورت ہے۔ انتظامیہ دیرپا تبدیلی لانے کے لیے پرعزم ہے۔‘‘