کشمیر اس وقت جھلستی گرمی سے جوجھ رہا ہے اورگرمی کے نئے ریکارڑ قائم ہو رہے ہیں ۔جمعرات کو سرینگر میں درجہ حرات‘جو گزشتہ زائد از دو دہائیوں میں جون میں درج ہو نے والا سب سے زیادہ تھا‘ ۳۵ ڈگری سینٹی گریڈ کے ہندسے کو عبور کرگیا ۔قاضی گنڈ اور ککر ناگ بھی نئے ریکارڑ قائم کرنے میں پیچھے نہیں رہے ۔
ماہرین موسمیات کاکہنا ہے کہ وادی میں گرمی کی لہر آئندہ کچھ ایک دنوں تک جا ری رہے گی اس کے بعد اس سے تھوڑی راحت ملنے کا امکان ہے ۔
جھلستی گرمی کی وجہ سے وادی کا ہر طبقہ ٔ فکر اسکولوں میں تعطیلات کا مطالبہ کرتا رہتا ہے اور امسال بھی ایسا ہی ہوا ۔ جون کے اوائل سے ہی والدین اور دوسرے حلقوں سے تعطیلات کا مطالبہ کیا جانے لگا اور حکومت نے بالآخر یکم جولائی سے دس دنوں کی تعطیلات کا اعلان کیا ہے ۔
لیکن کیا تعطیلات ہی اس کا واحد حل ہے ؟ اگر دس جولائی کے بعدجب اسکول گرمائی تعطیلات کے بعد دو بارہ کھلیں گے اور گرمی کی ایک اور لہر آگئی تو اس صورت میں کیا تعطیلات کی ایک اور قسط کا اعلان کیا جائیگا ؟ یقینا ایسا نہیں کیا جائیگا اور یہ حکومت کیلئے ممکن بھی نہیں ہو گا کیونکہ تعلیمی سال کے کچھ اپنے تقاضے اور مجبوریاں ہوتی ہیں جن میں نصاب کو وقت پر مکمل کرنا سب سے بڑی مجبوری اور چیلنج ہو تا ہے ۔
ہفتہ دس دنوں کیلئے اسکولوں کو بند رکھنا کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے‘لیکن تعطیلات حل نہیں ہے ۔ تعطیلات کی تاریخوں کے تعین میں اپنا سر کھپانے کے بجائے حکومت کو چاہئے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ اسکولوں… سرکاری اور پرائیویٹ دونوں میں ‘ ایسی سہولیات میسر رکھی جائیں کہ طلبا گرمی میں بھی بغیر کسی پریشانی کے اپنی تعلیمی اور نصابی سرگرمیوں کو جاری رکھ سکیں ۔
سرینگر میں بچوں کی ایک بڑی تعداد نجی اسکولوں میں زیر تعلیم ہے‘ اور یہ ان اسکولوں کی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ طلباء بغیر کسی پریشانی کے اسکولوں میں پڑھائی جا ری رکھ سکیں ۔لیکن یہ شکایات بڑی تواتر کے ساتھ آ رہی ہیں کہ اسکولوں میں پنکھوں اور اور بجلی کا موثر انتظام نہیں ہے ۔اگر کہیں پنکھے نصب ہیں تو بجلی کی ترسیل کا مسئلہ آڑے آ رہا ہے ۔صورتحال اتنی ابتر ہے کہ بچوں اپنے گھروں سے چھوٹے پنکھے‘ جو بیٹری پر چلتے ہیں ‘اسکول ساتھ لے جاتے ہیں تاکہ انہیں اس جھلستی گرمی سے نجات مل سکے ۔
نجی اسکول ہر سال بھاری بھرکم فیس کے علاوہ والدین سے انیول فیس کے نام پر ہزاروں روپے اینٹھ لیتے ہیں تاکہ ان تعلیمی اداروں میں دستیاب سہولیات کو ’اعلیٰ ‘درجے کی بنایا سکے ‘ لیکن یہ بات بڑے افسوس کے ساتھ کہنے پڑتی ہے کہ بیشتر اسکولوں میں ایسی کوئی سہولت دستیاب ہی نہیں ہے ‘حتیٰ کہ پینے کے صاف پانی کے انتظامات تک نہیں ہیں ۔
بات صرف گرمیوں کی نہیں ہے بلکہ سردیوں میں بھی اسکولوں میں گرمیوں کا کوئی بندو بست نہیں ہو تا ہے اور طلبا ‘خاص کر چھوٹے بچے ‘سردیوں میں ٹھٹھر جاتے ہیں اور اس وقت بھی جب کہ وادی میں شدت کی گرمی ہے ‘ چھوٹی عمر کے بچے ہی سب سے زیادہ مسائل کا شکار ہیں ۔انہیں ایسی اسکول بسوں اور وینوں میں بیٹھنا پڑنا ہے جن میں گنجائش سے زیادہ بچے سوار ہو تے ہیں ۔
اس تکلیف دہ صورتحال کا سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ حکومت خاموش تماشائی بن بیٹھی ہے اور اس نے اپنا رول سرمائی اور گرمائی تعطیلات کے تعین اور اعلانات تک محدود کر رکھا ہے ۔
حکومت بار بار اوقات کار میں تبدیلی لاکر خود کو بری الذمہ نہیں قرار دے سکتی ہے ‘ حالانکہ اس کے منفی اثرات بھی سب سے زیادہ چھوٹے بچوں پر ہی مرتب ہو رہے ہیں ‘ جو نیند پوری نہیں کر پاتے ہیں اور یوں اسکولوں میں تعلیم پر پوری توجہ نہیں دے پا رہے ہیں ۔
جمعرات کو حکومت نے جہاں گرمائی تعطیلات کا اعلان کیا وہیں ایک بار پھر اسکولوں میں اوقات کار تبدیل کر دئے ۔سرینگر کے میونسپل حدود میں آنے والے اسکولوں میں اوقات کار صبح۸ بجے سے دن کے ایک بجے تک رکھے گئے ہیں …اندازہ لگائیے کہ چھوٹے بچوں کو کتنا سویرے نیند سے بیدار ہونے پڑے گا تاکہ وہ وقت پر اسکول پہنچ سکے ۔
گلوبل وارمنگ کی وجہ سے کشمیر کے موسمی حالات اب بدل رہے ہیں اور یہاں بھی شدت کی گرمی پڑرہی ہے ۔جھلستی گرمیاں اب ایک مستقل مسئلہ ہے جس کا کوئی مستقل علاج تلاش کرنا ہو گا ۔حکوت کو اس ضمن میں جس سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہئے تھا ‘ وہ نہیں کررہی ہے ۔وہ سرکاری اسکولوں کے بنیادی ڈھانچے اور سہولیات میں بہتری لانے کے ضمن میں کوئی قدم اٹھا رہی ہے اور نہ ہی نجی اسکولوں کو جواب دہ بنایا جارہا ہے ۔ ان سے یہ نہیں پوچھا جارہا ہے کہ اگر وہ فیس اور دوسرے بہانوں سے والدین سے سالانہ خطیر رقومات وصول کرتے ہیں تو اس کے بدلے میں وہ کیا سہولیات دستیاب رکھ رہے ہیں ۔
سرکاری اسکولوں کے بنیادی ڈھانچے میں بہتری اور نجی اسکولوں کو جواب دہ بنانا اس لئے بھی ضروری ہے کیونکہ گرمیوں یا سردیوں میں اسکولوں کو ہفتوں اور مہینوں کیلئے بند رکھنا کوئی حل … صحیح حل نہیں ہے کیونکہ اس کا براہ راست منفی اثر بچوں کی تعلیم پر پڑ رہا ہے ۔