امریکی صدر‘ دونالڈ ٹرمپ کی آپریشن سندور کے دوران ہندوستان اور پاکستان میں ثالثی کرانے کے دعوؤں کی اس وقت ہوا نکل گئی جب وزیر اعظم‘ نریندرمودی نے ٹرمپ پر واضح کیا کہ ہندوستان نے ماضی میں کسی ثالثی کو قبول کیا ہے اور نہ مستقبل میں اسے کبھی قبول کیا جائیگا ۔
وزیر اعظم مودی نے بدھ کے روز صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو بتایا کہ ہندوستان اور پاکستان کی جانب سے مئی میں فوجی کارروائیاں روکنے کا فیصلہ براہ راست دونوں فریقوں کی فوجوں کے درمیان بات چیت کے دوران اور امریکہ کی طرف سے کسی ثالثی کے بغیر کیا گیا تھا ۔
ٹیلی فون پر۳۵ منٹ کی بات چیت کے دوران وزیر اعظم مودی نے صدر ٹرمپ سے کہا کہ ہندوستان نے کبھی ثالثی قبول نہیں کی ، نہ کبھی کرے گا اور نہ ہی کرے گا اور اس پر ہندوستان میں مکمل سیاسی اتفاق رائے موجود ہے۔
وزیر اعظم مودی نے صدر ٹرمپ پر واضح کیا کہ۷ سے۱۰مئی کے دوران ہند پاک کے درمیان چار روزہ فوجی جھڑپوں کے دوران‘ ہندوستان،امریکہ تجارتی معاہدہ یا ہندوستان اور پاکستان کے درمیان امریکہ کی طرف سے ثالثی’جیسے مسائل پر ‘کسی بھی وقت یا کسی بھی سطح پر بات چیت نہیں ہوئی۔
صدرٹرمپ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے ۱۰ مئی کو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کا اعلان کیا تھا اور ایک سرکاری امریکی بیان میںاس پیش رفت کو امریکہ کی طرف سے کی گئی ثالثی کا نتیجہ قرار دیا تھا۔ اس کے بعد سے ، صدرٹرمپ ایک درجن سے زیادہ مواقع پر دعوی کر چکے ہیں کہ انہوں نے ہندوستان اور پاکستان کو لڑائی بند کرنے پر مجبور کیا ، اور یہ کہ انہوں نے ان کوششوں میں دونوں ممالک کے ساتھ تجارت روکنے کی دھمکی کا استعمال کیا۔
یہ پہلا موقع ہے جب اس معاملے پر وزیر اعظم مودی کے ریمارکس کو عام کیا گیا ہے ۔ ماضی حال میں ، صرف حکام نے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان مفاہمت میں امریکی کردار کی خبروں کو مسترد کیا تھا جو نئی دہلی کے آپریشن سندور کے آغاز کے بعد شروع ہوئی تھی۔
۷مئی کو۲۲؍ اپریل کو پہلگام حملے‘جس میں ۲۶؍افراد ہلاک ہو گئے تھے‘ کے انتقامی کارروائی میں پاکستان اور اس کے زیر قبضہ کشمیر علاقوں میں دہشت گردی کے بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنایا گیا۔
۷ مئی کے ہندوستانی حملوں کے نتیجے میں چار دن تک شدید جھڑپیں ہوئیں جس میں دونوں فریقوں نے ایک دوسرے کی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنانے کے لیے میزائل ، ڈرون اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیاروں کا استعمال کیا۔اور پھر ۱۰مئی کو دونوں ممالک ایک دوسرے کیخلاف فوجی کارروائی کو روکنے پر متفق ہو گئے ۔
ملک میں اپوزیشن پارٹیاں بار بار حکومت سے مطالبہ کرتی آ رہی تھیں کہ وہ ثالثی کے امریکی صدر کے دعوؤں پراپنا موقف واضح کرے ۔ یہ مطالبہ اس لئے زور پکڑتا جارہا تھا کیونکہ صدر ٹرمپ نے کم از کم ۱۲ بار دونوں ہمسایہ ممالک میں ثالثی کرانے کا دعویٰ کر چکے تھے ۔لیکن اب امید کی جانی چاہئے کہ اپوزیشن کو بالکل واضح جواب مل گیا کہ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہوا تھا بلکہ ۱۰ مئی کی صبح جب ہندوستان کی فضائیہ نے پاکستان کے متعدد فضائیہ کے اڈوں کو کامیابی سے نشانہ بنایا اور انہیں نقصان پہنچایا تو اس کے ڈی جی ایم او نے از خود اپنے بھارتی ہم منصب سے ٹیلی فون پررابطہ کیا جس کے بعد دونوں جانب فوجی کارروائی رک گئی ۔
اور وزیر اعظم مودی نے صدر ٹرمپ کو بھی بتا یا کہ ہندوستان کے سخت ردعمل کی وجہ سے ‘پاکستان کو ہندوستان سے فوجی کارروائی روکنے کی درخواست کرنی پڑی۔فوجی کارروائی روکنے کا فیصلہ براہ راست ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ، دونوں فوجوں کے موجودہ چینلز کے ذریعے کیا گیا تھا ، اور یہ پاکستان کی درخواست پر کیا گیا تھا۔
صدر ٹرمپ نے وزیر اعظم مودی کے نکات کو تفصیل سے سمجھا اور دہشت گردی کے خلاف بھارت کی لڑائی کی حمایت کا اظہار کیا۔ٹیلی فونک بات چیت وزیر اعظم مودی نے یہ بھی کہا کہ ہندوستان اب دہشت گردی کو ایک جنگ کے طور پر دیکھتا ہے نہ کہ پراکسی جنگ ، اور ہندوستان کا آپریشن سندور اب بھی جاری ہے۔
آج کی بات چیت میںوزیر اعظم مودی نے صدر ٹرمپ پر یہ بھی واضح کیا کہ پاکستان کے ساتھ جب بھی بات چیت ہو گی ایک تو وہ دہشت گردی پر ہوگی اور ساتھ ہی جموں کشمیر کے اُن علاقوں کی واپسی پر ہو گی جن پر پاکستان اب گزشتہ ۸ دہائیوں سے غیر قانونی قبضہ کئے ہو ئے ہے ۔
وزیر اعظم مودی اور صدر ٹرمپ میں بات چیت اس لئے بھی اہم ہے کیونکہ بدھ کی شام کو پاکستان کے فوجی سربراہ ‘ فیلڈ مارشم عاصم منیر وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ سے ظہرانے پر ملاقات کررہے ہیں۔پاکستان کی فوجی قیادت کو بات چیت کیلئے مدعو کرنے سے ایک بار پھر یہ واضح ہو جاتا ہے کہ پاکستان میں طاقت کا اصل مرکز اور منبع کہا ں ہے ۔
عاصم منیر سے بات چیت میں توقع کی جا رہی ہے صدر ٹرمپ بھارت کے اس دو ٹوک موقف کو ان پر واضح کریں گے کہ جموںکشمیر یا ملک کے کسی دوسرے حصے میں دہشت گردی کے کسی بھی واقعہ کو اعلان جنگ تصور کیا جائیگا اور یہ بھی کہ آپریشن سندور کو ختم نہیں بلکہ صرف روک دیا گیا ہے ۔