جموںوکشمیر میں شدید ترین گرم لہر کی لپیٹ میں رہا۔ بارش اور راحت بخش ہوائوں کا نام ونشان کہیں نہیں، لوگ پانی کی بوندھ بوند ھ کے لئے ترس رہے ہیں، حصول آب کیلئے سڑکوں پر بھی آئے۔ یہ ایک سنگین مسئلہ ہے جس مسئلہ کو اُسی سنگینی اور سنجیدگی کے ساتھ ساتھ بھر پور متانت کے ساتھ ایڈریس کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ہم بحیثیت اوسط شہری کے نہ اپنی کمزوریوں کااحساس کرپارہے ہیں اور نہ ذمہ دارانہ کردار اداکرنے کے خوگر ہیں۔
ہم روایتوں کے اندھیرے غاروں میں بھٹک رہے ہیں، سڑکوں پر آکر ہم انصاف چاہتے ہیں کے نعرے بلند کرتے ہیں، لیکن ہمارے اندر ذرہ بھر بھی احساس شہریت نہیں۔ ہم بحیثیت مجموعی اس بات پر غوروفکر کرنے کیلئے تیار نہیں کہ وہ کشمیر جس کا ذرہ ذرہ گلیشئروں، ندی نالوں، جھیلوں، دریائوں ، آبشاروں اور بہتے پانیوں سے لبالب تھے، پینے اور دوسری روزمرہ کی ضروریات پوری کرنے کیلئے کبھی کوئی کمی محسوس نہیں کی جارہی تھی اچانک یہ سارے سوتے خشک کیوں پڑنے لگے، وہ پانی کہاں گیا، وجوہات کیا ہیں اور سب سے اہم اس تکلیف دہ صورتحال کا ذمہ دار کون ہے ۔ لیکن ساتھ ہی اس تکلیف دہ صورتحال سے نمٹنے کیلئے آخر ہمیں انفرادی اور اجتماعی سطح پر کیا کچھ کرنا چاہئے، باتوں اورنعرہ بازی کی روایات سے خود کو آزاد کرنا ہوگا اور اپنی ان کوتاہیوں، ہوس گیری، لالچ اور غیرذمہ دارانہ طریقہ کار کے حوالہ سے اپنے آپ کا محاسبہ کرنا ہوگا جو قدرت کے فطری نظام کے ساتھ چھیر چھاڑ اور پھر اس کی تباہی کا اصل کارن بنا۔
بے شک عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلی تیزی کے ساتھ رونما ہورہی ہے ، فیکٹریوں اور کارخانوں سے دھات، پلاسٹک اور کاربن روزانہ کی بُنیاد پر کھربوں ٹنوں وزنی پیداوار کی شکل میں دُنیا بھر میں سٹاک اور استعمال ہوتا جارہا ہے جس کے اپنے منفی اثرات ہیں جو نظام قدرت سے براہ راست متصادم ہوتا جارہاہے۔ جنگل کٹ رہے ہیں، پہاڑوں کے سینے کاٹ کاٹ کر راستے نکالے جارہے ہیں، ترقیات اور رسل ورسائل میںسہولیات کی آڑ میں ماحولیاتی توازن کو تہس نہس کیاجارہاہے، لیکن المیہ یہ ہے کہ جس ماحولیاتی توازن کو برقراررکھنے اور تحفظ عطاکرنے کیلئے جو سرکاری وغیر سرکاری ادارے حکومتی سطحوںپر تشکیل دیئے جاتے رہے ہیں وہ حکومتوں کی سیاسی لونڈیوں کا کرداراداکرکے حقیقت میں ماحولیاتی توازن کو بگاڑنے اور اس کی بیخ کنی کرنے میںعملی کردار اداکرتے دکھائی دے رہے ہیں۔
دریائے جہلم پر آج کی تاریخ میں نگاہ پڑتے ہی رگوں میں دوڑنے والا خون خول اُٹھتا ہے یقین نہیں آرہا ہے کہ کشمیر کی شان آن بان جہلم کے سینے پر یہ مردنی چھا جائے گی، ڈل جھیل کا پانی انسانی لاشوں کو چھپانے اور شہر سرینگر کی آبادی کے ایک بہت بڑے حصے جس کا تعلق کیچمنٹ ایریاسے ہے سے نکلنے والے گندگی ، نجاست، فضلہ اور دیگر خارجی مواد کیلئے بطور ڈمپنگ گرائونڈ استعمال میںلایا جائے گا۔ یہی وہ ڈل تھا جو کبھی کسی زمانے میں نہ صرف انسان کی پیاس بجھاتا رہا بلکہ پورے شہر کی آبادی کو روزمرہ ضروریات کی ساگ سبزیوں کی ضروریات بھی پوری کیا کرتا تھا۔
گرمی کی شدت ، پانی کی کمی اور پیداصورتحال سے نمٹنے کی سمت میں کوئی واضح،قابل عمل اور نتائج پر مبنی کوئی روڑمیپ دستیاب نہیں۔ آپ اس کو موسمیاتی تبدیلی کا شاخسانہ قرار دیں، ماحولیاتی توازن میں لالچی اور ہوس گیر انسانی ہاتھوں کی بربادی کہیے یا کوئی عذر لنگ تراش کر بطور دلیل پیش کریں، حقیقت یہ ہے کہ یہ نظام فطرت کا انتقام ہے اور چونکہ ابھی ابتدا ہی ہے لہٰذا اس کو ابتدائی چتاونی کے طوربھی لیاجاسکتا ہے۔
یہ تکلیف دہ صورتحال امیر ، غریب ،متوسط درجے، جانور، پرند اور ہر نوعیت کے حیات کیلئے یکساں طور سے ہے۔ نجات حاصل کرنا آسان نہیں اور نہ ہی اس کا کوئی حتمی یا دیرپا حل ہے البتہ کچھ اقدامات ہاتھ میںلئے جاسکتے ہیں لیکن ان اقدامات کو عملی جامہ پہنانے کیلئے جذبہ شہریت، احساس ذمہ داری اور کچھ کرنے کی دیانتدارانہ اور پُرخلوص نیت کاہونا لازمی ہے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے نہ جھنڈے بلند کرنے کا راستہ ہموار ہوسکتا ہے ، نہ آبادی کے کچھ مخصوص طبقوں اور روایت پسندوں کی غیر شرعی اُچھل کود خالق فطرت کی رحمت کو جوش میں لانے کا موجب بن سکتی ہے ۔ شریعت نے حصول رحمت کے حوالہ سے کچھ بُنیادی اصول مرتب کررکھے ہیں جن سے انحراف یا اور کوئی غیر فطری یا غیر شرعی راستہ اختیار کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
آپ جنگل کاٹ رہے ہیں، ہر جائز اور ناجائز طریقوں سے ، لیکن شجرکاری کو اپنے لئے معیوب سمجھ رہے ہیں ۔ آپ کی آنکھوںکے سامنے پہاڑوں کے سینوں کو چاک کیاجارہاہے لیکن آپ تماشہ دیکھ رہے ہیں، ندی نالوں ، جھیلوں ، آبشاروں، گلیشئروں کی سیاحت کو ترجیح تو دے رہے ہو اوران مقامات کو اپنی طبع تفریح کا سامان بھی تصور کررہے ہو لیکن ان مقامات اور بہتے دریائوں ، پانی کے ذریعوں کو ہر طرح کی گندگی اور غلاظت کی ایسی آماجگاہ بنارہے ہو جیسے آپ کو ایسا کرنے کیلئے بغیر کسی ادائیگی کے کھلی لائسنس اجراکی گئی ہے۔ گندگی اور غلاظت کے پھیلائو کا یہ سیاہ کارنامہ مقامی بھی انجام دے رہا ہے، یا تری بھی اور سیاح بھی۔
اس حقیقت کو ہمیں اعتراف اور تسلیم کرنے میں اب کوئی شرمندگی نہیںہونی چاہئے کہ ہم احسان فراموش ہیں، قدرت نے اپنا کرم کرکے ہمیںوہ کونسی دولت اور وسائل کے روپ میں راحت بخش اور زندگی بخش سرمائے عطانہیں کئے تھے لیکن ہم احسان فراموش لالچی اور مادہ پرست قوم نے قدرت کے اس نظام سے بغاوت کرکے اس کی تباہی وبربادی کا ہر راستہ اختیار کیا جو سرزمین پر ابتر اوربدترین قوموں کا خاصہ ہے۔ اس کے برعکس دُنیا میں کئی اقوام وہ بھی ہیں جو اپنی راحت اور طبع تفریح کے ساتھ ساتھ اپنی روزمرہ کی ضروریات کی تکمیل کو یقینی بنانے کیلئے اپنے ہاتھوں سے جھیل، ندی نالے، چشمے، جنگل وغیرہ نہ صرف تعمیر کررہے ہیں بلکہ ان کا تحفظ یقینی بنانے کیلئے ان مقامات پر اپنی موجودگی کے دوران اپنی تھوک تک قئے نہ کرنا اپنی اخلاقی ذمہ داری، احساس شہریت اور نظام قدرت کے آگے اپنا سرخم کرنا اپنی حیات کا مقصد تک سمجھتے ہیں۔