عید الاضحی، جسے عید قربانی بھی کہا جاتا ہے، اسلام کا ایک اہم تہوار ہے۔ یہ دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عظیم قربانی کی یاد دلاتا ہے، جنہوں نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے جذبہ ایثار کو دیکھ کر ان کے بیٹے کو بچا لیا اور ایک دنبے کو قربانی کے لیے مقرر فرمایا۔ اس واقعے کی یاد میں ہر سال مسلمان دنیا بھر میں عید الاضحی مناتے ہیں اور قربانی کرتے ہیں۔
لیکن عید الاضحی کا اصل مقصد صرف جانور ذبح کرنا نہیں، بلکہ اس میں غریبوں، مسکینوں اور ضرورت مندوں کا خیال رکھنا بھی شامل ہے۔ قربانی کا گوشت غریبوں میں تقسیم کرنا، ان کی خوشیوں میں شریک ہونا اور ان کی ضروریات کو پورا کرنا ہی اس عید کا حقیقی پیغام ہے۔اسلام نے ہمیں صرف عبادات تک محدود نہیں رکھا، بلکہ معاشرے کے کمزور طبقات کے ساتھ ہمدردی کرنے کی بھی تلقین کی ہے۔ عید الاضحی کے موقع پر ہماری کچھ اہم سماجی ذمہ داریاں ہیں جنہیں پورا کرنا ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔
جموں کشمیر میں ایسے لوگوں کی کوئی کمی نہیں ہے جو آج عید کے دن بھی دوسرے کشمیریوں کے ساتھ عید کی خوشیوں میں شامل نہیں ہو پاتے ہیں ۔ محدود مالی وسائل انہیں عید کی خوشیوں سے دور رکھ رہے ہیں‘محروم رکھتے ہیں ۔عید ایک ایسا دن ہے جو ایسے لوگوں تک پہنچنے اور ان کی مالی معاونت کرنے کا جذبہ دیتا ہے کیونکہ قر آن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے’’نہ تو ان (قربانیوں) کا گوشت اللہ تک پہنچتا ہے اور نہ ہی ان کا خون، لیکن اس تک تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے‘‘۔
آج ہمارے معاشرے میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو دو وقت کی روٹی تک سے محروم ہیں۔ عید کے موقع پر جب امیر گھرانے قیمتی جانور خرید کر قربانی کرتے ہیں، تو بہت سے غریب گھرانے ایسے ہوتے ہیں جن کے پاس سال بھر میں گوشت کھانے کا موقع نہیں ملتا۔ ایسے میں اگر ہم اپنی قربانی کا گوشت ان تک پہنچائیں، تو یہ ان کے لیے بہت بڑی سعادت ہوگی۔
لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ آج کل بہت سے لوگ قربانی کے گوشت کو صرف اپنے رشتہ داروں اور دوستوں تک محدود رکھ دیتے ہیں، جبکہ حقیقی مستحقین تک یہ گوشت نہیں پہنچ پاتا۔ کچھ لوگ تو قربانی کا گوشت فروخت کر دیتے ہیں، جو کہ شرعاً جائز نہیں۔ ہمیں اس رویے کو بدلنا ہوگا اور غریبوں کو عید کی خوشیوں میں شامل کرنا ہوگا۔
عید الاضحی صرف ایک رسم نہیں، بلکہ یہ ہمدردی، ایثار اور غریبوں کی مدد کا موقع ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس موقع پر اپنے غریب پڑوسیوں، رشتہ داروں اور معاشرے کے ضرورت مند افراد کا خیال رکھیں۔ اگر ہم اپنی قربانی کا ایک تہائی، بلکہ زیادہ حصہ غریبوں میں تقسیم کریں، تو یہ ہمارے لیے باعثِ ثواب ہوگا۔
مسلمانوں کو حکم ہے کہ قربانی کے تین حصے کرو: ایک حصہ اپنے گھر والوں کے لیے، ایک حصہ رشتہ داروں اور دوستوں کے لیے، اور ایک حصہ غریبوں اور مسکینوں کے لیے۔لیکن اگر کوئی شخص غریبوں کو زیادہ دے، تو یہ بہتر ہے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ قربانی کا تمام گوشت اپنے گھر میں رکھ لیتے ہیں، جو کہ سنت کے خلاف ہے۔
قربانی صرف جانور ذبح کرنے کا نام نہیں، بلکہ یہ اپنے اندر سے لالچ، خود غرضی اور بخل کو ختم کرنے کا نام ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم عید الاضحی کے موقع پر غریبوں کی مدد کریں، ان کے ساتھ گوشت بانٹیں، انہیں تحفے دیں اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کریں۔ خاص طور پر آج کے دور میں جب مہنگائی نے غریبوں کی زندگی اجیرن بنا دی ہے، ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان کی مدد کریں۔ اگر ہم اپنی عید کی خوشیوں میں انہیں شامل کریں، تو یہ ہمارے ایمان کی تکمیل ہوگی۔
ہمارے معاشرے میں یتیم بچے اور معذور افراد اکثر نظر انداز کر دیے جاتے ہیں۔ عید الاضحی کا پیغام ہے کہ ہم ان کی مدد کریں اور انہیں خوشیوں میں شامل کریں۔ ہم یہ کام کیسے کر سکتے ہیں؟ یتیم خانے جاکر بچوں کے ساتھ وقت گزاریں، انہیں تحفے دیں۔ معذور افراد کی مدد کریں، اگر وہ مالی طور پر کمزور ہیں تو انہیں امداد فراہم کریں۔ ان بچوں کی تعلیمی ضروریات پوری کریں جو غربت کی وجہ سے سکول نہیں جا پاتے۔
عید کے موقع پر صرف گوشت ہی نہیں، بلکہ مالی امداد بھی غریبوں کی مدد کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ ہمارے معاشرے میں بہت سے ایسے خاندان ہیں جو عید پر نئے کپڑے تک نہیں خرید پاتے یا اپنے بچوں کی چھوٹی چھوٹی خواہشات پوری نہیں کر سکتے۔
عید الاضحی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ہم اپنی خوشیوں میں دوسروں کو بھی شامل کریں۔ اگر ہم صرف اپنے لیے جئیں گے، تو ہماری عید ادھوری رہ جائے گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں غریبوں، مسکینوں اور ضرورت مندوں کی مدد کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آئیے، اس عید پر یہ عہد کریں کہ ہم اپنی قربانیوں کو صرف رسم تک محدود نہیں رکھیں گے، بلکہ اس کی روح کو زندہ کریں گے اور معاشرے کے کمزور طبقوں کی مدد کریں گے۔
اللہ ہم سب کو عید الاضحی کے حقیقی پیغام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔