تو صاحب کہنے والوں کاکہنا ہے کہ کشمیر میں اب مقامی نوجوانوں نے جنگجوئیت سے مکمل طور پر اپنامنہ پھیر لیا ہے ۔ گزشتہ ایک دو برسوں میں فورسز کے ساتھ مختلف جھڑپوں میں مارے گئے جنگجوؤ ں میں سے اکثریت غیر مقامی جنگجوؤں کی ہے ۔ مارے گئے نوجوانوں کی اکثریت غیر ملکی ہے‘ پاکستانی ہے…یعنی مقامی نوجوانوں کی‘ کشمیری نوجوانوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے اور… اور اس لئے نمک کے برابر ہے کیونکہ اب کم قلیل تعداد میں مقامی نوجوان ‘ جنگجوؤں کی صفوں میں شامل ہو تے ہیں…کہا جارہا ہے کہ اس وقت کشمیر میں سرگرم مقامی جنگجوؤں کی تعداد دس سے بھی کم ہے …اور اس لئے کم ہے کیونکہ انہوں نے جنگجوئیت سے اپنا منہ پھیر لیا ہے ۔ یہ ایک مثبت تبدیلی ہے کہ … کہ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ جب جھڑپوں میں مارے جانے والوں میں سے اکثریت نہیں بلکہ غالب اکثریت کا تعلق کشمیر سے ہو تا تھا اور… اور اس لئے ہو تا تھا کیونکہ ہر سال ایک اچھی خاصی تعداد میں کشمیری نوجوان جنگجوؤں کی صفوں میں شامل ہو تے تھے… لیکن… لیکن اب نہیں … اب یہ قصہ ٔ پارینہ ہے ۔ حکومتی سطح پرہڑتال اور پتھراؤ نہ ہونے کو گزشتہ پانچ برسوں میںایک بڑی کامیابی اور بڑی تبدیلی قرار دی جاتی ہے … لیکن صاحب اصل اور بڑی کامیاب کشمیری نوجوانوں کا جنگجوئیت سے منہ پھیر نا ہے… جنگجوئیت سے باز رہنا ہے … یہ سب سے بڑی کامیابی ہے… اس لئے بھی ہے کہ یہ کشمیری نوجوانوں کی سوچ میں آئی تبدیلی… انقلابی تبدیلی کی چغلی کھاتی ہے…اس سے پتہ چلتا ہے کہ یقینا کشمیری نوجوان اب آگے بڑھنا چاہتا ہے… پر امن لیکن کامیاب زندگی گزارنا چاہتا ہے… ملک کے دوسرے نوجوانوں کے شانہ بشابہ کشمیر اور ملک کی ترقی میں حصہ دار بننا چاہتا ہے…اب وہ اپنے ہاتھ میں پتھر اٹھانے میں دلچسپی رکھتا ہے اور نہ بندوق کہ اس کی سمجھ میں یہ بات آگئی ہے اور… اور سو فیصد آئی ہے کہ پتھر اور بندوق اٹھانا‘ دونوں گھاٹے کا سودا ہے… ایسا سودا جس سے کشمیری قوم کو گزشتہ تیس پینتیس برسوں سے نقصان ہوا… نقصان کے سوا کچھ اور نہیں ہوا… گھاٹے کے سوا اس کے ہاتھ کچھ نہیں لگا… بالکل بھی نہیں لگا۔اور یہ چھوٹی سی بات… لیکن پتے کی بات اب کشمیر کے ہر ایک نوجوان کی سمجھ میں آگئی ہے اور… ور سو فیصد آ گئی ہے ۔ ہے نا؟