سرینگر//
جموں کشمیر اسمبلی کے بجٹ اجلاس سے لیفٹیننٹ گورنر‘ منوج سنہا کے خطاب میں دفعہ ۳۷۰ کا کوئی تذکرہ نہ ہونے پر وادی کی اپوزیشن جماعتوں نے حکمران جماعت‘ نیشنل کانفرنس کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی(پی ڈی پی) کی سربراہ محبوبہ مفتی نے پیر کو نیشنل کانفرنس پر آرٹیکل ۳۷۰ کی منسوخی کی توثیق کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے جموں و کشمیر کے وزیر اعلی عمر عبداللہ پر زور دیا کہ وہ اپنے لوگوں کے حقوق اور عزت نفس کے لئے کھڑے ہوں۔
سابق ریاست کی سابق وزیر اعلی نے یہ بھی کہا کہ جموںکشمیرکے مسائل ریاست کی بحالی تک محدود نہیں ہیں۔
جموں و کشمیر اسمبلی میں بجٹ سیشن کے پہلے دن لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کے خطاب پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے محبوبہ مفتی نے کہا کہ نومبر میں ایوان کے ذریعہ منظور کردہ آرٹیکل۳۷۰ کی بحالی کی قرارداد کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
پی ڈی پی کی سربراہ نے ایک پریس کانفرنس میں کہا’’اس حکومت نے اس قرارداد کا ذکر کرنے کی ہمت نہیں کی جس کے بارے میں اس نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ آرٹیکل ۳۷۰ کی بحالی کیلئے ہے‘‘۔
محبوبہ نے کہا کہ ہمارے چیف منسٹر کہتے ہیں کہ وہ کجریوال نہیں بننا چاہتے۔ کوئی بھی انہیں کجریوال بننے کے لئے نہیں کہہ رہا ہے، لیکن خدا کے واسطے، اپنے لوگوں کے حقوق اور عزت نفس کے لئے کھڑے ہوں۔ لوگوں نے آپ کو ووٹ کیوں دیا؟
سابق وزیر اعلیٰ نے کہا کہ نیشنل کانفرنس پچھلے چھ سالوں میں بی جے پی کے اقدامات کو جائز قرار دینے کی کوشش کر رہی ہے ، جس میں اگست ۲۰۱۹ میں آرٹیکل۳۷۰ کی منسوخی بھی شامل ہے۔
پی ڈی پی صدر نے کہا’’بدقسمتی سے ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی کا ایجنڈا، جموں و کشمیر کے بارے میں ان کی پالیسی، بھاری اکثریت سے منتخب ہونے والی برسراقتدار حکومت کی توسیع بن گئی ہے۔ جن چیزوں کے لئے ہم آواز اٹھاتے تھے، جو غیر آئینی ہیں، ایسا لگتا ہے کہ نیشنل کانفرنس کے لوگ حالیہ برسوں میں ہونے والی چیزوں کو جائز قرار دینے کی دوڑ میں ہیں‘‘۔
محبوبہ نے بجٹ سیشن کے پہلے دن لیفٹیننٹ گورنر‘منوج سنہا کے خطاب کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے مایوسی کا اظہار کیا کہ اس میں جموں و کشمیر کے عوام کو درپیش بے اختیاری کے مسائل کو حل نہیں کیا گیا۔
پی ڈی پی صدر نے کہا’’لیفٹیننٹ گورنر کے خطاب میں اس قرارداد کا کوئی ذکر نہیں تھا جس کے بارے میں نیشنل کانفرنس کا دعویٰ ہے کہ وہ آرٹیکل۳۷۰ کی بحالی کے لیے لائے تھے۔ اس کابینہ نے اسے سامنے لانے کی ہمت بھی نہیں کی ہے۔ ہم اور کیا کہہ سکتے ہیں؟‘‘
محبوبہ نے عمر عبداللہ پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ کوئی انہیں دہلی کے سابق وزیر اعلی اروند کیجریوال بننے کے لئے نہیں کہہ رہا ہے ، لیکن انہیں کم از کم اپنے لوگوں کے حقوق کے لئے کھڑا ہونا چاہئے۔
سابق وزیر اعلیٰ نے کہا ’’ہمارے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کہتے ہیں کہ میں کجریوال نہیں بننا چاہتا۔ کوئی بھی انہیں کجریوال بننے کیلئے نہیں کہہ رہا ہے، لیکن خدا کے واسطے، اپنے لوگوں کے حقوق کے لئے کھڑے ہوں‘‘۔
محبوبہ نے کہا کہ بی جے پی اس وقت بھی آرٹیکل ۳۷۰ کی منسوخی کا مسئلہ اٹھاتی رہی ہے جب اس کے پاس کوئی طاقت نہیں تھی۔
پی ڈی پی صدر نے کہا’’عمر صاحب کہتے ہیں کہ وہ بی جے پی سے یہ (دفعہ ۳۷۰) کیسے حاصل کریں گے۔ جب بی جے پی ۷۰ سال تک آرٹیکل ۳۷۰کو منسوخ کرنے کی بات کر سکتی ہے تو کم از کم آپ (عمر) اس پر بول سکتے ہیں اور کہہ سکتے ہیں کہ یہ غیر قانونی طور پر کیا گیا تھا‘‘۔
محبوبہ نے کہا کہ لوگوں نے عمر عبداللہ کو اس امید کے ساتھ ووٹ دیا کہ حکومت بے اختیاری کے مسائل کے ساتھ ساتھ جائیداد، معدنیات اور ملازمتوں کے خدشات کو بھی حل کرے گی۔
پی ڈی پی صدر نے کہا’’مجھے چار مہینوں میں نیشنل کانفرنس سے معجزوں کی توقع نہیں تھی، لیکن کم از کم انہیں اس طرح کے مسائل پر اپنی آواز اٹھانی چاہیے تھی‘‘۔
محبوبہ نے کہا کہ دفعہ۳۷۰؍اور ریاست کی بحالی کے علاوہ عوام کو کئی مسائل کا سامنا ہے۔
سابق وزیر اعلیٰ نے کہا کہ وہ کئی بل لائے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ جموں و کشمیر کو درپیش ان اہم مسائل کو حل کرنے کیلئے سیاسی جماعتوں کے درمیان اتحاد ہوگا۔
اس دوران جموںکشمیر پیپلز کانفرنس کے صدر اور رکن اسمبلی سجاد لون نے نیشنل کانفرنس کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ پارٹی اب یہ ظاہر کرنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کر رہی ہے کہ ان کا دفعہ۳۷۰سے کوئی تعلق ہے ۔
لون نے کہا’’کیا زوال ہے ، اگر یہ خطاب حکومت کا ویژن سٹیٹمنٹ ہے تو یہ بے بصیرت ہے ‘‘۔
پیپلز کانفرنس کے صدرنے ان باتوں کا اظہار پیر کو ’ایکس‘پر اپنے ایک طویل پوسٹ میں کیا۔
لون نے کہا’’گورنر کا خطاب بی جے پی، اگر وہ اقتدار میں ہوتے ، کی ممکنہ تقریر سے الگ نہیں ہے ، ایسا لگتا ہے کہ مکمل نظریاتی اوورلیپ ہے‘‘۔
پی سی سربراہ کا کہنا ہے’’دفعہ۳۷۰؍اور دفعہ۳۵؍اے کا کوئی ذکر نہیں‘۵؍اگست۲۰۱۹کا کوئی ذکر نہیں، تنظیم نو کے قانون کا کوئی ذکر نہیں‘‘۔
نیشنل کانفرنس پر دکھاوے کا الزام لگاتے ہوئے لون کا پوسٹ میں کہنا تھا’’ایسا لگتا ہے کہ نیشنل کانفرنس نے اب دکھاوا کرنا بھی چھوڑ دیا ہے وہ اب یہ بھی ظاہر نہیں کرنا چاہتے ہیں کہ ان کو دفعہ ۳۷۰سے دور کا بھی کوئی واسطہ ہے ‘‘۔
لون نے کہا’’مجھے یاد ہے کہ انتخابی مہم کے دوران سب کچھ دفعہ۳۷۰پر ہی مرکوز تھا اور باقی سب کو بی جے پی کے ساتھ جوڑا جاتا تھا لیکن اب یہ نظریاتی ہم آہنگی مکمل ہوچکی ہے ‘‘۔
ان کا کہنا تھا’’کیا زوال ہے ، اگر یہ خطاب حکومت کا ویژن سٹیٹمنٹ تھا تو یہ بے بصیرت تھا، یہ صرف ایک سرکاری محکمے کا عمومی بیان ہے جو کسی بھی نئے سیاسی، سماجی اور معاشی پہل سے عاری ہے ‘‘۔
پی سی صدر نے اپنے پوسٹ میں مزید کہا’’لہٰذا ایک بے مقصد، بے بصیرت حکمرانی کیلئے تیار رہیں جو اپروچ میں کسی بھی نئے پن یا کسی تخلیقی صلاحیت سے عاری ہوگی‘‘۔
لون نے کہا’’بیوروکریسی نے گذشتہ حکومت بھی چلائی اور وہی اس انتطامیہ کو بھی چلائیں گے ،حکمرانی میں سیاسی شراکت بالکل موجود نہیں ہوگی۔‘‘
ادھرپی ڈی پی کے سینئر لیڈر اور ممبر اسمبلی وحیدالرحمن پرہ نے لیفٹیننٹ گورنر کے خطبے کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے کہاکہ اس میں دفعہ ۳۷۰، قیدیوں کی رہائی جیسے اہم مسائل پر بات ہی نہیں ہوئی۔
پرہ نے کہاکہ اگر موجودہ حکومت نے طے کیا ہے کہ وہ ایل جی انتظامیہ کی طرز پر ہی سرکار چلائے گی تو یہ لوگوں کے منڈیٹ کے ساتھ بہت بڑی نا انصافی ہے ۔
ان باتوں کا اظہار پی ڈی پی رکن اسمبلی نے جموں میں نامہ نگاروں سے بات چیت کے دوران کیا۔
پرہ نے کہاکہ جہاں تک لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کے خطبے کا تعلق ہے تو اس میں۳۷۰کی بحالی، قیدیوں کی رہائی، ڈیلی ویجروں کی نوکریاں مستقل کرنے جیسے اہم مسائل پر کچھ نہیں کہا گیا۔
اپوزیشن جماعت کے رکن اسمبلی نے کہاکہ چونکہ ایل جی کا خطبہ جموں وکشمیر سرکار ہی طے کرتی ہے لیکن ہمیں مایوسی ہوئی کہ عمر عبداللہ کی قیادت والی سرکار نے اہم مسائل سے یوٹرن لیا ہے ۔ان کے مطابق جموں وکشمیر کے لوگوں نے اہم مسائل کو حل کرنے کی خاطر ہی نیشنل کانفرنس کو منڈیٹ دیا لیکن آج وہ لوگوں کے ساتھ کئے گئے وعدوں سے منحرف ہو رہے ہیں۔
پرہ نے کہاکہ پی ڈی پی نے شراب کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کرنے ، ڈیلی ویجروں کی نوکریاں مستقل کرنے کے حوالے سے پرائیوٹ بلیں جمع کرائی ہیں۔
اپوزیشن جماعت کے رکن اسمبلی نے مزید بتایا کہ آج بھی جموں وکشمیرمیں نوجوانوں کی گرفتاری عمل میں لا کر انہیں باہر کی ریاستوں میں مقید رکھا جارہا ہے ، لوگوں کے رہائشی مکان قرق کئے جارہے ہیں جبکہ سرکاری ملازمین کو نوکریوں سے برخواست کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔