صاحب جب کہہ دیا کہ ایک مناسب وقت پر کشمیر کا ریاست کا درجہ بحال کیا جائیگا تو… تو بس ۔ اس کے آگے اب ایک لفظ بھی کہنے اور سننے کی گنجائش نہیں رہتی ہے اور…اور اس لئے نہیں رہتی ہے کہ گزشتہ پانچ چھ برسوں میں مرکز نے کم از کم پانچ چھ درجن بار یہ یقین د ہانی کرائی ہو گی… وہ بھی پارلیمنٹ میں کہ کشمیر کا ایک مناسب وقت پر ریاستی درجہ بحال کیا جائیگا … لیکن کشمیر کے حکمران ہیں ‘ جنہیں اس یقین دہانی پر یقین ہے اور نہ صبر ۔تھوڑا انتظار کیجئے ‘ صبر کیجئے اور… اور اس مناسب وقت کے آنے کا انتظا رکیجئے جو گزشتہ پانچ چھ برسوں سے نہیں آرہا ہے …اور نہ فی الحال آئیگا۔ لیکن اس کا یہ ہر گز بھی مطلب نہیں کہ یہ مناسب وقت کبھی آئے گا ہی نہیں … نہیں اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہو سکتا ہے ۔ ہمیں امید سے زیادہ یقین ہے ایک مناسب وقت پر یہ مناسب وقت آئے گا اور… اور مرکز اپنا وعدہ نبھائے گا… تب تک یو ٹی کے درجہ کے ساتھ ہی گزارا کیجئے اور بہانے بنانا بند کیجئے کہ … کہ اللہ میاں کی قسم اس درجے سے کم از کم ہمیں تو کانٹے نہیں لگ رہے ہیں… جن کو ا س سے مرچیں لگ رہی ہیں… ہم ان سے صرف اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ صاحب جب ملک کشمیر ایک ملک… معاف کیجئے گا کہنے کا مطلب ہے ریاست تھی تب آپ نے اس ریاست کے ساتھ کیا کیا … آپ کو تو کئی مواقع آئے … کئی بار آپ حکومت میں رہے… کئی بار کیا ‘ آپ ہی ہر بار حکومت میں رہے … پھر آپ نے اس ریاست کے ساتھ کون سا انصاف کیا ‘ اس کیلئے کون سے تارے توڑ لائے ‘ اس کے ہاں کون سی دودھ اور شہد کی نہریں بہا دیں‘ بنیادی ڈھانچے میں کون سی انقلابی تبدیلیاں لائیں ‘ کون سے روز گار کے مواقع پیدا کئے … امن اور قانون کیلئے کون سا قدم اٹھایا … لوگوں کے مسائل حل کرنے میں آپ نے کون سی دلچسپی دکھائی‘ کرپشن کے خاتمے کیلئے آپ نے کیا کوشش کی جو… جو آج آپ ریاستی درجے کی بحالی کی با ت کررہے ہیں اور… اور ہر ایک بات میں کررہے ہیں ۔ہم کہہ رہے ہیں کہ یہ مناسب وقت یقینا آئے گا اور… اور ایک مناسب وقت پر آئیگا۔تب تک آپ انتظار کیجئے‘ اورہاں صبر بھی ۔ ہے نا؟