سرینگر//(ویب ڈیسک)
وزیر اعلیٰ‘ عمر عبداللہ نے منگل کے روز کہا کہ منتخب حکومت عوام کے مسائل کو حل کرنے پر توجہ مرکوز کررہی ہے اور یہ گننا بے معنی ہے کہ جموںکشمیر میں حکومت کتنے دنوں سے قائم ہے۔
ان کاکہنا تھا’’اگر آپ کو لگتا ہے کہ ہم دن نہیں گن رہے تھے تو یہ آپ ہیں جو دن گن رہے ہیں۔ یہ ہمارے لئے بیکار ہے۔ جب ہم ایک سو دنوں کے کام کی بات کرتے ہیں تو اس کا کوئی مقصد پورا نہیں ہوتا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ چھ سال کی مدت کے بعد یہ ایک مختلف دور ہے۔ حکومت کے ڈومین اور کام کاج کو سمجھنے میں وقت لگتا ہے۔ اس سے پہلے میں ریاست کے وزیر اعلیٰ کے طور پر خدمات انجام دے چکا تھا اور لوگوں کو خصوصی سہولیات حاصل تھیں، لیکن آج یہ ایک مرکز کے زیر انتظام علاقہ ہے جو مکمل طور پر مختلف ہے۔ لیکن ہماری کوشش ہے کہ عوام اور حکومت کے درمیان اچھے تعلقات برقرار رہیں اور ہم اس میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ہم نے انتخابی منشور میں کئے گئے وعدوں کو پورا کرنا شروع کرنے کی بھی کوشش کی‘‘۔
وزیر اعلی عمر عبداللہ نے ایک ٹی وی چینل کے ذریعہ منعقدہ ایک پروگرام کے دوران ان خیالات کا اظہار کررہے تھے۔
عمر عبداللہ نے حکومت کے کام کاج میں رکاوٹوں کو تسلیم کیا کیونکہ مرکز کے زیر انتظام جموں و کشمیر کو طاقت کے دو مراکز سے کنٹرول کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا’’ہم کے اے ایس افسروں کا تبادلہ کر رہے ہیں، جبکہ آئی اے ایس کا تبادلہ راج بھون سے کیا جا رہا ہے۔ یہ دوہرے کنٹرول سسٹم کی وجہ سے ہے۔کابینہ کے فیصلوں کو منظوری کیلئے لیفٹیننٹ گورنر آفس بھیجا جا رہا ہے۔ ایل جی نئی دہلی کے حکم کے تحت لاء اینڈ آرڈر کا خیال رکھ رہے ہیں۔ پہلے یہ کابینہ ہی فیصلہ کرتی تھی کہ ڈی سی، ایس پی، آئی جی، صوبائی کمشنر‘چیف سیکرٹری وغیرہ کون ہوں گے اور اب ہم ان کی تقرریوں کا فیصلہ نہیں کر رہے ہیں۔ ان کا حکم اور کنٹرول ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے۔ لیکن ہمیں لگتا ہے کہ یہ نظام زیادہ دیر تک قائم نہیں رہے گا‘‘۔
وزیر اعلیٰ نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ جموں و کشمیر کی منتخب حکومت بے اختیار نہیں ہے۔انکاکہنا تھا’’ حکومت بے اختیار نہیں ہے۔ اگر ہم بے اختیار ہوتے تو آپ مجھ سے نہیں بلکہ ایل جی سے سوال کرتے۔ اگر آج منتخب نمائندے آپ کے سامنے بیٹھے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ہمارے ہاتھ میں کچھ ہے‘‘۔
عمرعبداللہ نے یہ بھی کہا کہ انتخابات کے دوران ہم نے عوام سے کچھ نہیں چھپایا۔ انہوں نے کہا’’ہم نے ہر چیز کو واضح کیا کہ اگر ہمیں۱۰۰فیصد مسائل کو حل کرنا ہے تو اسے مکمل ریاست کا درجہ دینے کی ضرورت ہے۔ لیکن پھر بھی میں یہ کہوں گا کہ جموں و کشمیر کے یو ٹی ہونے کے باوجود ایسے مسائل ہیں جن کو حل کیا جاسکتا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ دوہری طاقت کا نظام زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہے گا کیونکہ وزیر اعظم نریندر مودی نے زیڈ موڑ ٹنل کی افتتاحی تقریب میں کہا تھا کہ وہ اپنے وعدوں سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ ہم اپنے اہداف کا تعاقب کر رہے ہیں اور ہم اپنے اہداف کے حصول کو یقینی بنائیں گے‘‘۔
کابینہ اور قانون ساز اسمبلی کی جانب سے منظور کی گئی قراردادوں کے بارے میں پوچھے جانے پر وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا کہ دونوں قراردادیں موجود ہیں۔ انہوں نے کہا’’میں نے خود کابینہ کی قرارداد وزیر اعظم نریندر مودی کو سونپی، کیونکہ اسمبلی کی قرارداد میرے لیے زیادہ قابل قدر اور معنی خیز ہے کیونکہ ہم نے اسے نئی دہلی بھیجا تھا جس نے اسے مسترد نہیں کیا۔ یہ ہمارے لئے ایک بڑی کامیابی ہے‘‘۔
دفعہ ۳۷۰؍ اور۳۵ (اے) کی بحالی کے وعدے کے بارے میں پوچھے جانے پر عمرعبداللہ نے کہا’’اگر ہم لوگوں سے کہیں گے کہ ہمیں ان لوگوں سے حقوق واپس ملیں گے جنہوں نے ہم سے یہ حقوق چھین لیے ہیں تو یہ دھوکہ دینے جیسا ہوگا۔ یہ ایک احمقانہ وعدہ ہوگا۔ کم از کم ہم اپنے لوگوں کو دھوکہ نہیں دیں گے۔ اگر بی جے پی جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے لئے سالوں تک انتظار کرے گی تو ہمیں اسے واپس حاصل کرنے کے لئے کچھ وقت کا انتظار کیوں نہیں کرنا چاہئے‘‘۔
وزیر اعلیٰ نے کہا’’مجھے نہیں لگتا کہ پچھلے ۱۰۰دنوں میں کیے گئے کام سے مطمئن ہونے کی ضرورت ہے۔ میرا ماننا ہے کہ زیادہ سے زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ کم از کم ہم حکومت اور عوام کے درمیان رابطے بحال کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں‘‘۔
سرینگر اسمارٹ سٹی ورکس میں مبینہ گھوٹالے کی تحقیقات کرنے والے اینٹی کرپشن بیورو کے افسران کے تبادلوں کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے اس اقدام پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے تبادلے شفافیت اور احتساب کے اصولوں کو کمزور کرتے ہیں۔
عمرعبداللہ نے ریمارکس دیئے کہ یہ تبادلے نہیں ہونے چاہئیں تھے۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ اے سی بی ان کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر یہ محکمہ میرے کنٹرول میں ہوتا تو شاید اس طرح کے تبادلے نہ ہوتے۔