نئی دہلی//
سپریم کورٹ نے جموںکشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف ) کے سربراہ یاسین ملک کی ورچوئل پیشی کے لیے جموں کی متعلقہ خصوصی عدالت میں ویڈیو کانفرنسنگ کی سہولت فراہم کرنے کی آج ہدایت دی ، جو۱۹۸۹میں روبیہ سعید کے اغوا اور۱۹۹۰کی سری نگر فائرنگ کے مقدمات کے ملزم ہے اور دہلی کی تہاڑ جیل میں بند ہے ۔
جسٹس ابھے ایس اوکا اور اجل بھوئیاں کی بنچ نے متعلقہ فریقوں کے دلائل سننے کے بعد جموں و کشمیر اور لداخ ہائی کورٹ کے رجسٹرار جنرل کو یہ ہدایت دی۔
بنچ نے ملک کے لیے خصوصی عدالت کی سماعت میں ورچوول طور پر شرکت کرنے کے لیے ویڈیو کانفرنسنگ کی مناسب سہولت کو یقینی بنانے کے لیے ہدایات جاری کیں۔اس کے ساتھ ہی دہلی ہائی کورٹ کے رجسٹرار (ٹیکنالوجی) سے کہا گیا ہے کہ وہ یہ چیک کریں کہ آیا تہاڑ جیل میں ویڈیو کانفرنسنگ کی سہولت ٹھیک سے کام کر رہی ہے یا نہیں۔
یاسین ملک دہلی کی تہاڑ جیل میں بند ہے اور دہشت گردی کی سرگرمیوں کو ڑھاوا دینے کے لیے مالی مدد فراہم کرنے کے ایک دیگر مقدمے میں وہ عمر قید کی سزا کاٹ رہا ہے ۔
سنٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن (سی بی آئی) نے جموں کی خصوصی عدالت کے اس حکم پر ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا تھا جس میں اسے (ملک) کو گواہوں کی جرح کے لیے جسمانی طور پر اس کے سامنے پیش کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔
سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے سی بی آئی سے کہا کہ وہ (اس عدالت کو) دکھائے کہ ملک نے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے حاضر ہونے سے انکار کر دیا ہے ۔
سی بی آئی کی طرف سے پیش ہونے والے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے بنچ کو بتایا کہ یہ ٹرائل کورٹ کے حکم میں درج ہے ۔
عدالت عظمیٰ نے تاہم کہا ’’جج (نچلی عدالت کے ) نے کہا کہ ویڈیو کانفرنسنگ سسٹم ٹھیک سے کام نہیں کر رہا ہے ‘‘۔
ٹرائل کورٹ کے حکم کا حوالہ دیتے ہوئے مسٹر مہتا نے کہا کہ حکم میں کہا گیا ہے کہ ملزم نمبرایک(ملک) نے استغاثہ کے گواہ سے ورچوئل موڈ کے ذریعے جرح کرنے سے انکار کر دیا اور عدالت کے سامنے اپنی جسمانی موجودگی پر اصرار کیا تاکہ وہ استغاثہ سے جرح کر سکے ۔
مہتا نے عرض کیا کہ آرڈر میں یہ بھی درج ہے کہ ملزم نمبر ایک کسی وکیل کو مقرر نہیں کرنا چاہتا اور نہ ہی وہ کسی وکیل کی خدمات حاصل کرنا چاہتا ہے ۔
اپنے حکم میں عدالت عظمیٰ نے کہا’’دو مقامات پر ایڈیشنل جج سوم، جموں کے مشاہدات میں یہ بات ریکارڈ کی گئی ہے کہ ان کی عدالت میں ویڈیو کانفرنسنگ سسٹم ٹھیک سے کام نہیں کر رہا ہے ۔ اس لیے ہم جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے رجسٹرار جنرل کو ہدایت دیتے ہیں کہ وہ جج (خصوصی عدالت کے ) کی طرف سے کی گئی گذارشات کا نوٹس لیں اور ایک مناسب نظام قائم کرنے کے لیے فوری اقدامات کریں جس سے کہ ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے مناسب طریقے سے سماعت کی جا سکے ۔
عدالت عظمیٰ نے کہا کہ نظام ایسا ہونا چاہیے کہ اس سے مؤثر جرح کی جا سکے ۔ عدالت عظمی نے مزید کہا کہ رجسٹرار جنرل کو ضروری کارروائی کرنی چاہیے اور ایک اور رجسٹرار مقرر کرنے کے بعد درست طریقے سے قائم کردہ نظام کا آڈٹ کرنے کے بعد اس عدالت کو اگلی۱۸فروری تک رپورٹ پیش کرنی چاہیے ۔
سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ وہ اس کیس کی اگلی سماعت۲۱فروری کو کرے گا۔
سی بی آئی نے مطالبہ کیا ہے کہ۱۹۸۹کے ہائی پروفائل روبیہ سعید کے اغوا اور۱۹۹۰کے سرینگر فائرنگ کے مقدمات کی سماعت جموں سے نئی دہلی منتقل کی جائے تاکہ ملک کو وہاں کی خصوصی عدالت میں لے جانے کی ضرورت نہ پڑے ۔
گزشتہ سال دسمبر میں عدالت عظمیٰ نے دونوں مقدمات کی سماعت جموں سے دہلی منتقل کرنے کی سی بی آئی کی درخواست پر جواب دینے کے لیے چھ ملزمان کو دو ہفتے کا وقت دیا تھا۔
ایک کیس۲۵جنوری۱۹۹۰کو سرینگر میں ہندوستانی فضائیہ کے چار اہلکاروں کے قتل سے متعلق ہے‘ جبکہ دوسرا ؍۸دسمبر ۱۹۸۹کو اس وقت کے مرکزی وزیر داخلہ مفتی محمد سعید کی بیٹی روبیہ سعید کے اغوا سے متعلق ہے ۔کالعدم تنظیم جے کے ایل ایف کے سربراہ ملک کو دونوں مقدمات میں مقدمے کا سامنا ہے ۔
سی بی آئی نے ستمبر۲۰۲۲میں جموں کی ٹرائل کورٹ کے اس حکم کے خلاف فوری درخواست دائر کی تھی جس میں ہدایت دی گئی تھی کہ تہاڑ جیل میں عمر قید کی سزا کاٹنے والے ملک کو روبیہ سعید کیس میں استغاثہ کے گواہوں سے جرح کرنے کے لیے جسمانی طور پر پیش کیا جائے ۔
مرکزی ایجنسی نے اپنی درخواست میں اصرار کیا تھا کہ ملک قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہے اس لئے اسے تہاڑ جیل کے احاطے سے باہر لے جانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔