سرینگر/
جموںکشمیر کی گرمائی راجدھانی سرینگر کے سونہ وار علاقے میں فوج کی ممکنہ انہدامی کارروائی کے خلاف ممبر اسمبلی لالچوک‘احسان پردیسی نے دھرنا دیا ۔
پردیسی نے کہاکہ عدالت سے حکم امتناعی حاصل کرنے کے باوجود بھی آج صبح یہاں پر رہائشی مکان کو گرانے کی خاطر جے سی بی لائے گئے ۔
ممبر اسمبلی نے الزام لگایا کہ ضلعی انتظامیہ فوج کے ساتھ مل کر یہاں۳۰سے ۴۰مکانوں کو منہدم کرنے کی فراق میں ہے ۔
اطلاعات کے مطابق ممبر اسمبلی لالچوک احسان پردیسی نے جمعرات کے روز سونہ وار میں فوج اور ضلعی انتظامیہ کی انہدامی کارروائی کے خلاف دھرنا دیا۔
نامہ نگاروں سے بات چیت کے دوران پردیسی نے کہاکہ ہائی کورٹ کی جانب سے حکم امتناعی کے باوجود بھی غیر قانونی طریقے سے آج صبح سونہ وار میں انہدامی کارروائی شروع کرنے کی کوشش کی گئی۔
پردیسی نے کہاکہ اگر معاملہ کورٹ میں چل رہا ہے تو کیا وجہ ہے کہ ضلعی انتظامیہ فوج کے ساتھ مل کر یہاں کے لوگوں کو بے گھر کرنا چاہتی ہے ۔
ممبر اسمبلی کے مطابق یہ غنڈہ گردی ہے اور ہم اس عوام کش منصوبے کو کسی بھی صورت میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے ۔
پردیسی نے کہاکہ ضلعی انتظامیہ کے سینئر عہدیداروں کے ساتھ اس معاملے پر بات کی لیکن اس کے باوجود بھی وہ آج صبح سونہ وار میں رہائشی مکان گرانے کی خاطر نمودار ہوئے ۔
این سی رکن اسمبلی نے کہاکہ لوگ یہاں سالہا سال سے رہائش پذیر ہیں لہذا اس طرح کا اقدام ناقابل برداشت ہے ۔
پردیسی کا کہنا تھا کہ جب انہیں سونہ وار میں رہائشی مکانوں کو منہدم کرنے کی اطلاع ملی تو فوری طورپر لوگوں کے ساتھ مل کر دھرنے میں شامل ہوئے ۔انہوں نے الزام لگایا کہ ضلعی انتظامیہ فوج کے ساتھ مل کر سونہ وار میں ۳۰سے ۴۰رہائشی مکانات گرانے کی فراق میں ہے۔انہوں نے مزید کہاکہ اگر معاملہ عدالت میں چل رہا ہے تو غیر قانونی طور پر انہدامی مہم شروع کرنے کے پیچھے کون سے محرکات کار فرما ہے ۔
دریں اثنا مقامی لوگوں نے کہاکہ وہ یہاں پر سالہا سال سے رہائش پذیر ہیں تاہم اس کے باوجود بھی ہمارے ساتھ انصاف نہیں ہو رہا ہے ۔
ایک مقامی شہری کے مطابق اگر رہائشی مکان گرانا بھی ہے تو قانونی طورپر پہلے نوٹس جاری کی جانی تھی لیکن ایسا نہیں کیا گیا بلکہ جمعرات کی صبح جے سی بی لے کر رہائشی مکان گرانے کی خاطر آئے جو سراسر نا انصافی ہے اور اس کے خلاف ہم چپ نہیں رہیں گے ۔
دریں اثنا سرینگر نشین دفاعی ترجمان یا ضلعی انتظامیہ کی جانب سے ممبر اسمبلی کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات پرکوئی وضاحتی بیان سامنے نہیں آیا ہے ۔