اسمبلی میںخصوصی درجے کی بحالی کی منظور شدہ قرار داد کو مسترد نہیں کیا گیا ‘ اس سے دروازے کھل گئے
’ریاست کا درجہ بحال ہونے کے بعد سیاسی قیدیوں کے معاملوں کی پیروی کی جائے گی‘
سرینگر//
جموں کشمیر کے وزیر اعلی‘ عمر عبداللہ نے جمعہ کو کہا کہ سرکاری ملازمتوں میں ریزرویشن کے مسئلہ پر تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بات چیت کے لئے تشکیل دی گئی کابینہ کی ذیلی کمیٹی ایک جامع نقطہ نظر اپنائے گی تاکہ سب کے ساتھ انصاف ہو اور کسی کے حقوق نہ چھینے جائیں۔
جمعہ کو سرینگر میں ایک تقریب کے بعد نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے عمرعبداللہ نے کہا کہ ذیلی کمیٹی میں تین وزراء شامل ہوں گے اور ایک بار جب یہ اپنی رپورٹ پیش کرے گی تو اس معاملے پر فیصلہ کیا جائے گا۔
وزیر اعلیٰ کاکہنا تھا’’ریزرویشن کے بارے میں بہت کچھ کہا جا رہا ہے۔ ہمارے نوجوان، خاص طور پر اوپن میرٹ کیٹیگری سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو لگتا ہے کہ انہیں ان کے حقوق نہیں مل رہے ہیں، لیکن ایسے لوگ بھی ہیں جنہیں ریزرویشن کے دائرے میں لایا گیا ہے، جو اپنے حقوق میں کوئی کمی نہیں چاہتے ہیں۔اس لئے کابینہ نے ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے جس میں تین وزراء شامل ہوں گے اور کابینہ نے ان سے کہا ہے کہ وہ اس معاملے پر ایک جامع نقطہ نظر اختیار کریں‘‘۔
جموں و کشمیر اسمبلی کی جانب سے حال ہی میں منظور کی گئی خصوصی حیثیت سے متعلق قرارداد کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال پر وزیر اعلیٰ نے کہا کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس قرارداد کو کہیں بھی مسترد نہیں کیا گیا۔
عمرعبداللہ نے کہا ’’قرارداد منظور کی گئی اور کسی نے اسے مسترد نہیں کیا۔ اس نے ایک دروازہ کھول دیا ہے۔ ہم دیکھیں گے کہ مستقبل میں کیا ہوتا ہے‘‘۔
قرارداد پر کانگریس کے قومی صدر ملکارجن کھرگے کے تبصرے پر وزیر اعلیٰ نے کہا کہ کانگریس پارٹی حکومت کا حصہ نہیں ہے۔انہوں نے کہا’’کانگریس باہر سے ہماری حمایت کر رہی ہے، وہ ہماری حکومت میں شامل نہیں ہوئی ہے۔ حکومت قرارداد لے کر آئی اور بی جے پی کو چھوڑ کر سبھی (اسمبلی) ممبروں نے اس بار اسے منظور کیا جس میں کانگریس بھی شامل تھی‘‘۔
وزیر اعلیٰ نے کہا ’’اب یہ واضح ہے کہ بی جے پی نے مہاراشٹر اور جھارکھنڈ انتخابات میں کانگریس کو نشانہ بنایا ۔ یہ سب سے پہلے ان لوگوں کو جواب ہے جنہوں نے کہا تھا کہ قرارداد میں کچھ بھی نہیں ہے۔ اگر قرارداد میں کچھ بھی نہیں تھا تو پھر وزیر اعظم اور وزیر داخلہ نے باقاعدگی سے قرارداد کیوں اٹھائی ہے؟ یہ واضح ہے کہ اس میں کچھ ہے‘‘۔
جموںکشمیر کے وزیر اعلی نے کہا کہ کانگریس کے لئے یہ مجبوری ہے کہ وہ قرارداد کو کمزور کرنے کی کوشش کرے ،’’لیکن وہ جو کہتے ہیں اس کی وجہ سے کچھ بھی کمزور نہیں کیا جاسکتا ہے کیونکہ جموں کشمیر اسمبلی نے اسے بھاری اکثریت سے منظور کیا ہے‘‘۔
حکمراں نیشنل کانفرنس کے انتخابی منشور میں قیدیوں کی رہائی کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں عبداللہ نے کہا کہ قیدیوں کو رہا کرنے کے لئے ریاست کا درجہ ضروری ہے کیونکہ فی الحال سیکورٹی ، پولیسنگ اور لاء اینڈ آرڈر مرکزی حکومت کے ماتحت ہیں اور ایل جی اس کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔
تاہم وزیر اعلیٰ نے کہا کہ جب بھی انہوں نے پولیس انتظامیہ سے بات کی ہے تو انہوں نے ان سے قیدیوں کے مسائل پر نظر ثانی کرنے کو کہا ہے، خاص طور پرپولیس ویریفکیشن کے معاملے پر جس کے لئے لوگوں کو ہراساں کیا جاتا ہے۔
عمرعبداللہ نے کہا’’میں نے اپنی اسمبلی کی تقریر میں کہا ہے کہ پولیس ویریفکیشن کے عمل کو ہتھیار بنا دیا گیا ہے۔ اب اسے کافی حد تک روک دیا گیا ہے اور مستقبل میں اس میں مزید لچک ہوگی‘‘۔انہوں نے کہا’’لیکن جہاں تک قیدیوں کی رہائی کا تعلق ہے، ہم پہلے دن سے ہی ریاست کا درجہ بحال کرنے پر کام کر رہے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ کچھ چیزیں ایسی ہیں جن پر لوگ کچھ ترقی چاہتے ہیں، جو مرکز کے زیر انتظام علاقے میں نہیں کیا جا سکتا ہے‘‘۔
وادی کشمیر میں بجلی کی کٹوتی کے بارے میں عمرعبداللہ نے کہا کہ انہوں نے دہلی میں مرکزی وزیر توانائی سے ملاقات کی اور جموں و کشمیر کے لئے اضافی کوٹہ منظور کیا گیا۔ ’’لیکن، ہمیں سردیوں میں کچھ کٹوتی کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ میں نے محکمہ سے کہا ہے کہ جہاں بجلی کی چوری کم ہو اور بجلی کے چارجز ادا کیے جا رہے ہوں وہاں بجلی کی کٹوتی اور شیڈنگ میں کمی لائی جائے۔ مجھے امید ہے کہ اس موسم سرما میں صورتحال میں بہتری آئے گی‘‘۔
اس سے قبل عبداللہ عبداللہ نے ورچوئل موڈ کے ذریعے ہائی ٹیک فلورل نرسری توسیعی منصوبے اور باغ گلے داؤد کا سنگ بنیاد رکھا۔