نئی دہلی// ہندوستان میں خواتین کو معاشی طور پر بااختیار بنانے کے لیے پرعزم اودیتی فاو[؟] نڈیشن نے آج اپنے صنفی امتیاز کو ختم کرنے (سی جی جی) پہل کے تحت مالی سال 2023-24 کے لئے نئے ڈاٹا اور معلومات کی نقاب کشائی کی۔
اس موقع پر اودیتی فاو[؟]نڈیشن کی سی ای او پوجا گوئل نے کہاکہ ہماری پہل‘:کلوز دی جینڈرگیپ[؟] (Close the Gender Gap)کے تازہ ترین اعداد و شمار تنظیموں کو صنفی تفاوت کو کم کرنے کے لئے کام کرنے کی ترغیب دیتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اس کی ترجیحات کی فوری ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ اعلیٰ عہدوں پر خواتین کے لیے یکساں مواقع، صنفی عدم مساوات کو تنظیمی ترقی کے ہر حصے میں شامل کیا جانا چاہیے ۔ ہماری گزارش ہے کہ اس عظیم خلائکو پر کریں اور اس صلاحیت سے بھرپورقوت سے فائدہ اٹھائیں۔
رواں سال کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان میں خواتین کے پاس صرف 18فی صد رسمی ملازمت ہے ۔ تاہم، صحت کی دیکھ بھال (41فی صد) اور صارفین کی خدمات (30فی صد) جیسے کچھ شعبوں میں خواتین کی نمائندگی مستحکم ہے ، جب کہ تعمیرات اور بجلی جیسی صنعتوں پر مکمل طور پر مردوں کادبدبہ ہے ۔ اس میں صرف 3تا4فی صد خواتین کی نمائندگی ہے ۔98فی صد کمپنیوں کے بورڈ میں کم از کم ایک خاتون ڈائرکٹر ہونے کی باوجود یہ تعداد 1 سے زیادہ خاتون ڈائرکٹر والی کمپنیوں کے لئے 46فی صد تک گر جاتی ہے ۔ مزید برآں، صرف 10فی صد کمپنیوں نے کلیدی انتظامی اہلکاروں (کے ایم پی) کے عہدوں پر ایک سے زائدہ خواتین کی موجودگی کا پتہ چلتا ہے ، جو خواتین کے لیے اعلیٰ عہدوں میں ایک بہت بڑا فرق ظاہر کرتی ہے ۔ خواتین کو تعمیرات اور اسی طرح کے شعبوں میں تنخواہوں میں بھاری تفاوت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، خواتین کلیدی انتظامی اہلکار(کے ایم پی) اپنے مرد ہم منصبوں کے مقابلے میں 2 کروڑ روپے تک کم تنخواہ پاتی ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ صارفین کی خدمات اوراسپتال اور لیبارٹری کے شعبے ، جن میں خواتین کی اعلیٰ نمائندگی ہے ، بالترتیب 34فی صد اور 33فی صد پر سب سے زیادہ ٹرن اوور کی شرح رکھتے ہیں، جو افرادی قوت کے استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے موزوں برقرار رکھنے کے منصوبوں کی ضرورت کو اجاگر کرتے ہیں۔ نتائج سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ جنسی ہراسانی کی شکایات کی رپورٹنگ میں اضافہ ہوا ہے ،گزشتہ کچھ برسوں کے مقابلے رپورٹ ہونے والے معاملات میں 38 فیصد اضافہ ہوا ہے جوتشویش کا باعث ہے ۔