سرینگر//
کشمیر پاور ڈِسٹری بیوشن کارپوریشن لمیٹڈ (کے پی ڈِی سی ایل) نے آج اَپنے صارفین کو ایڈوائزری جاری کی کہ وہ سری نگر شہر اور مضافات میں سرگرم کچھ گروہوں کے خلاف چوکس رہیں جو سمارٹ میٹروں سے چھیڑ چھاڑ کرنے کیلئے اَپنی خدمات پیش کر رہے ہیں۔
پی ڈِی سی ایل کے سینٹرل انسپکشن سکارڈنے حال ہی میں متعدد صارفین کو سمارٹ میٹروں سے چھیڑ چھاڑ کرتے ہوئے پکڑا ہے اور جانچ کے دوران صارفین نے چند کارندوں کے نام ظاہر کئے ہیںجنہیں جموں کشمیر پولیس کے ساتھ اِشتراک کیا جائے گا تاکہ اس میں ملوث بڑے گروہوں کا پردہ فاش کیا جاسکے اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایاجاسکے۔
پی ڈِی سی ایل کے ترجمان نے تفصیلات فراہم کرتے ہوئے کہا کہ ریئل ٹائم ڈیٹا سمارٹ میٹروں سے ڈیٹا سینٹر تک پہنچتا ہے جس میں اگر کوئی ٹیمپر الرٹ ہوتا ہے تو ڈسکام کو مل پراکٹس کی نشاندہی کرنے میں مدد ملتی ہے۔
ترجمان نے وضاحت کرتے ہوئے کہا’’کوئی بھی ٹیمپرنگ فول پروف نہیں ہے اور ڈسکام کا ہیڈ اینڈ سسٹم سمارٹ میٹر کے اندرونی سرکٹری کے ساتھ آسانی سے فیڈلنگ کا پتہ لگاتا ہے اور صارفین کی طرف سے کھپت کو کم کرنے کی کوششوں کو بے نقاب کرتا ہے۔‘‘
ترجمان نے صارفین کوالیکٹرسٹی ایکٹ کے تحت سخت کارروائی کی وارننگ دیتے ہوئے کہا کہ کے پی ڈِی سی ایل کے سینٹرل انسپکشن سکارڈنے سرینگر شہر کے علاقے مہجور نگر، واتل کدل، حول، فردوس آباد، بٹہ مالو، ڈلگیٹ، باغات، زینہ کوٹ اور راجباغ علاقوں کے علاوہ ضلع بارہمولہ کے سوپور ٹاؤن میں ان گینگز کے ذریعے صارفین کی طرف سے سمارٹ میٹر ٹیمپرنگ اور اِنٹرنل سرکٹ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے کچھ واقعات کا پتہ لگایا ہے۔
کے پی ڈی سی ایل ترجمان نے مزید کہا کہ ان تمام چھیڑ چھاڑ والے سمارٹ میٹروں کو ضبط کیا گیا ہے اور صارفین کو غیر قانونی طور پر اِستعمال کی جانے والی توانائی کی وصولی کے نوٹس بھی جاری کئے گئے ہیں۔
کے پی ڈِی سی ایل نے تمام سرکل ہیڈوں کو ہدایت جاری کی ہے کہ وہ ٹمپرنگ کے لئے سمارٹ میٹروں کی جانچ پڑتال کے لئے خصوصی سکارڈ تشکیل دیں۔
دریں اثنا، کے پی ڈِی سی ایل اپنے ڈیٹا سینٹر میں سمارٹ میٹر والے صارفین کے کم کھپت پروفائلز کی جانچ کر رہا ہے تاکہ اس بات کی جانچ کی جا سکے کہ کیا کم کھپت کو ریکارڈ کرنے کیلئے میٹر سے چھیڑ چھاڑ کرنے کی کوئی کوشش کی گئی ہے۔
کے پی ڈِی سی ایل کے ترجمان نے کہا کہ سمارٹ میٹروں سے چھیڑ چھاڑ کے خلاف کافی حد تک رُکاوٹ پیدا کرنے کے لئے الیکٹرک سب ڈویژنوں کے متعلقہ ایس ڈی اوز کی جانب سے مختلف تھانوں میں ایف آئی آر بھی درج کی گئی ہیں۔