تعلیمی سیشن کو واپس نو مبر …دسمبر میں تبدیل کرنے کے حالیہ حکومتی فیصلے کا عوامی سطح پر خیر مقدم کیا جارہا ہے۔ ریاستی درجہ کی بحالی سے متعلق قرارداد کی منظوری کے بعد یہ عوامی حکومت کا دوسرا بڑا فیصلہ ہے۔ اس فیصلے کونہ صرف عوامی سطح پر قبولیت حاصل ہوئی بلکہ اسے مقامی آبادی کی خواہشات کے عین مطابق بلکہ احترام کے طور سے بھی دیکھاجارہاہے۔ تعلیم سے وابستہ سٹیک ہولڈر وں کی جانب سے بھی حکومتی فیصلے کی سراہنا کی جارہی ہے جبکہ حکومت سے اب یہ بھی مانگ کی جارہی ہے کہ گذرے چند برسوں کے دوران شعبہ تعلیم کے تعلق سے جتنے بھی احکامات صادر کئے جاچکے ہیں انہیں کالعدم قرار دے کر تعلیم کے شعبہ کو واپس اصلی حالت میں بحال کیا جائے۔
تعلیم سے وابستہ سٹیک ہولڈروں کی طرف سے اس حوالہ سے جو باتیں کی جارہی ہیں یا جو دعوے اب سامنے آرہے ہیں اُن پر یقین کیاجائے اور سچ پر مبنی سمجھا جائے تو یہ سارے قوانین اور احکامات کالے، ظلم وزیادتی اور انتقام سے عبارت رہے ہیں جن کی عمل آوری کے نتیجہ میں کشمیرکا سارا تعلیمی نظام نہ صرف درہم برہم ہوا بلکہ بہت بڑے پیمانے پر تباہی بھی ہوئی۔
درجنوں سکول بند کئے گئے، سکیورٹی ، سلامتی اور اعتباریت کے نام پر جو سکول اس مخصوص مدت کے دوران بند ہوئے ان سکولوں میں زیر تعلیم ہزاروں بچے تعلیم کے زیور سے بھی محروم ہوگئے، جبکہ درجنوں تعلیمی ادارے ہنوز سرکاری نوٹس پر ہیں اوران سے کہا جارہا ہے کہ وہ سرکاری زمین پر ناجائز قابضین کی حیثیت رکھتے ہیں یا ان کے حق میں سکیورٹی کلیئرنس نہیں ہے۔ تاہم عدالتی انجکشن کے نتیجہ میں یہ تعلیمی ادارے فی الحال کام کررہے ہیں۔ایک محتاط اندازہ کے مطابق گذرے پانچ برسوں کے دوران کم سے کم ڈیڑھ لاکھ بچے سکولوں سے ڈراپ ہوگئے جبکہ کشمیر کا محکمہ تعلیم مسلسل دعویٰ کرتا رہا کہ اس کی سرپرستی میںقائم سکولوں میںبچوں کے داخلہ کا شرح تناسب بڑھ رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر مقامی بچے ڈراپ ہورہے ہیں تو داخلہ کے جس شرح تناسب میں اضافہ کا دعویٰ کیاجارہاہے وہ کون سے بچے ہیں اور وہ کہاں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس تعلق سے یہ اطلاعات ہیں کہ کئی ایسے سکول ہیں جن میں وہ بچے داخلہ حاصل کررہے ہیں جن کا تعلق کچھ بیرون ریاستوں سے ہیں اور جن کے والدین کشمیر آکر کام کررہے ہیں۔
اس حوالہ سے عوامی اور سیاسی حلقوں میں اس خدشہ کا اظہارکیاجارہاہے یا یہ تاثر شدت سے اُبھررہا ہے کہ کچھ ہی آنے والے برسوں تک کشمیرمیںرہ کر اور تعلیم حاصل کرنے کے دعوئوں کولے کر یہ لوگ کشمیر کی شہریت(ڈومسائل) سندیں حاصل کرنے کی اپنی اہلیت اور حقداری کا دعویٰ پیش کریں گے اور اس طرح آہستہ آہستہ کشمیرکا مسلم اکثریتی کردار بھی بتدریج تبدیل ہوتا جائے گا۔
بہرحال یہ ایک الگ موضوع ہے، فی الوقت مسئلہ یہ ہے کہ تعلیمی اداروں چاہئے ان کا تعلق سرکاری شعبے سے ہے یا نجی شعبے سے ہے کو جن معاملات اور مسائل کا سامنا ہے، جن میں زمین کی الاٹمنٹ، پولیس ویری فیکشن، فیس اور دیگر چارجز کے ڈھانچے کا تعین، داخلہ کے وقت ڈونیشن کے نام پر والدین سے بھاری رقومات کا تقاضہ، پھر سالانہ اخراجات کے نام پر بھاری وصولیاں، وردیوں اور مختلف مگر باہم متصادم نصابی کُتب کی سکولوں کی مرضی کے مطابق خریداری، ایسے معاملات خاص طور سے قابل ذکر ہیں کے تعلق سے سرنوجائزہ لینے اور معاملات کو حتمی طور سے حل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ سیاسی اور انتظامی سطح پر آنے والے وقتوں میںکسی بھی نوعیت کی تبدیلی ان پر اثرانداز نہ ہوسکے اور کسی بیروکریٹ یا حاکم اعلیٰ کو اپنی من مانیاں عوام اور بچوں پر ٹھونسنے اور مسلط کرنے کی جرأت نہ ہوسکے۔
کشمیر کے شعبہ تعلیم کے تعلق سے بیت ساری کہانیاں، قصے اور افسانے زبان زد ہ عام ہیں۔ معلوم نہیں کہ ان میں کتنی سچائی ہے یا کس حد تک غلط بیانی سے عبارت ہیں۔ البتہ یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ یہ شعبہ انتہائی کورپٹ ، بدعنوان اور دُنیا بھر کی لٹیرانہ اور استحصالانہ خصلتوں کا مجسمہ ہے۔ جس کسی نے بھی گذرے چند دہائیوں کے دوران اس شعبے کی قیادت کی ایک تو ان میں سے کئی ایک اہلیت کے اعتبار سے کارنجار بدست گلکار کی حیثیت کے حامل رہے ہیں اور پھر کورپٹ ترین۔ موجودہ قیادت کس اہلیت کی حامل ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں، اگر بیروکریٹ اپنی کوئی اہلیت اور صلاحیت نہیںرکھتا لیکن وہ چاپلوسی، خوشامد اور ہز یا ہر ماسٹر س کا کردار اداکرنے کا راستہ اختیار کرکے اپنے کیرئیرکو تو آگے بڑھا سکتا ہے لیکن ایسے بیروکریٹ کے ماتحت ادارے اور ان میں تعلیم پانے والے بچے نہ صرف تباہ ہوسکتے ہیں بلکہ اصل سے محروم بھی ہوسکتے ہیں۔
وزیر تعلیم نے ابھی چند ہی روز قبل اس محکمہ کا قلمدان سنبھالا ہے، انہیں کارکردگی کا جائز ہ لینے اور تمام تر معاملات کا احاطہ کرکے تجزیہ کرنے کیلئے یقیناً کچھ وقت درکار ہوگا اور یہ واجبی بھی ہے کیونکہ عجلت یا جذبات یا کسی مصلحت کے پیش نظر لئے جارہے فیصلے دیر پا ثابت نہیں ہوسکتے اور نہ ہی ایسے فیصلے آگے چل کر ثمر آور ثابت ہوسکتے ہیں لیکن ان سب حقیقتوں کے باوجود ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ سارا شعبہ اوپر سے نچلی گورننس سطح تک سرجری کا تقاضہ کررہا ہے اور اُن سبھی کورپٹ اور خوشامدی عنصروں کی چھان بین کشمیر کے تباہ حال تعلیمی نظام کی پُروقار بحالی کے پیش نظرناگزیر بن چکی ہے۔
جہاں تک سرکاری اراضیوں پر تعمیر یا قائم سرکاری وغیر سرکاری سکولوں کے تعلق سے معاملات کا تعلق ہے تو اگر کوئی سکول کسی سرکاری اراضی پر قائم ہے تو اس سکول کو بند کرنے یا عمارت پر بلڈوزر چلانے کا کون سا قانونی اور اخلاقی جواز بنتا ہے ۔ کیا کشمیر اور جموں خطے میں بہت بڑے سرمایہ داروں کی سرپرستی اور ملکیت والے پرائیوٹ سکولوں کو سرکاری اراضی الاٹ نہیں کی گئی ہے۔ کیا کشمیر کا میلنسن، بسکو سکول، برن ہال ، ڈی پی ایس چین سرکاری الاٹ شدہ اراضیوں پر قائم نہیں، یہ مستثنیٰ ہیں تو دوسرے نشانے پر کیوں؟
کیاا س لئے کہ ان سرکاری یا غیر سرکاری سکولوں میں آبادی کے غریب اور مڈل طبقوں کے بچے زیر تعلیم ہیں، لہٰذا ان کی تنگ طلبی اور ہراسگی کا جواز بنتا ہے جبکہ اربوں ؍کھربوں روپے مالیت کی اراضی پر عرصہ دراز سے قائم میلنسن ، بسکو، ڈی پی ایس، برن ہال وغیرہ میں چونکہ بڑے طبقوں کے بچے زیر تعلیم ہیں لہٰذا وہ ہر طرح کی اہلیت اور سہولیات کے حقدار ہیں۔ یہ پالیسی یا طریقہ کار متعصبانہ ہے ، انتقامی ہے اور صریح بچوں کی تعلیم دُشمنی کے جذبے اور نیت سے عبارت ہے۔