سرینگر//
کشمیر میں اس کا کوئی دفتر نہیں ہے۔ نہ ہی کشمیر میں اس کا کوئی عہدیدار ہے۔
فروری ۲۰۱۹ کے پلوامہ حملے میں سی آر پی ایف کے۴۰ جوانوں کی ہلاکت کے بعد مرکزی حکومت نے پورے کشمیر میں اس تنظیم پر پابندی عائد کردی تھی۔اس کے صدر عبدالحمید فیاض جیل میں ہیں۔
اس کے باوجود کشمیر کے انتخابات میں ۱۰ آزاد امیدوار یہ اعلان کرنے سے گریز نہیں کرتے کہ انہیں کالعدم جماعت اسلامی کی حمایت حاصل ہے۔
یہ پوچھے جانے پر کہ جب جماعت اسلامی کو ہندوستان میں کالعدم قرار دیا گیا ہے تو انہیں جماعت اسلامی کی حمایت کیسے حاصل ہے، کولگام اسمبلی سیٹ سے آزاد امیدوار سیار احمد ریشی کہتے ہیں’’یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ جماعت پر پابندی لگا دی گئی۔ ہندوستان کا آئین اس طرح کی پابندی سے باہر نکلنے اور انتخابات لڑنے کی راہ ہموار کرتا ہے لہذا ہم نے اس آزاد راستے کو اختیار کرنے کا انتخاب کیا۔ اب ہم امید کر رہے ہیں کہ انتخابات کے بعد ہم پر سے پابندی اٹھا لی جائے گی‘‘۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا اس کا مطلب جماعت اسلامی ہے، جو اپنے پاکستان نواز اور انتخابات مخالف موقف کے لیے جانی جاتی تھی، اب ہندوستان کے آئین کی قسم کھا تی ہے، ریشی نے کہا’’جماعت اسلامی نے کبھی انتخابات کا بائیکاٹ نہیں کیا، لیکن حریت کانفرنس نے اس کا بائیکاٹ کیا۔ ہم ہندوستانی آئین پر ۱۰۱ فیصد یقین رکھتے ہیں۔۱۹۸۷ میں کشمیر کے انتخابات میں دھاندلی کی وجہ سے ہم انتخابات سے دور رہے۔ تب ہم نے ہندوستانی جمہوریت پر سے اعتماد کھو دیا تھا‘‘۔
یہ پوچھے جانے پر کہ جماعت اسلامی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کو ہندوستانی جمہوریت میں دوبارہ یقین کیوں آیا، ریشی نے کہا’’۲۰۲۴ کے عام انتخابات۔ اب ہمیں یقین ہے کہ ہندوستان میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ہو رہے ہیں اور ہم نے۲۰۲۴ کے عام انتخابات میں یہ دیکھا ہے۔ اس لیے ہم نے محسوس کیا کہ ہمیں بھی میدان میں کود نا چاہیے‘‘۔
جماعت کے حمایت یافتہ نو دیگر آزاد امیدوار کشمیر میں دیوسر، زینہ پورہ، پلوامہ، بیروہ، لنگیٹ، سوپور، بارہمولہ، بانڈی پورہ اور رفیع آباد سے اسمبلی انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔
دہشت گردی کے ملزم حافظ محمد سکندر ملک بانڈی پورہ سے جماعت کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار ہیں جو ضمانت پر باہر ہیں اور ٹخنے کی الیکٹرانک مانیٹر پہنتے ہیں تاکہ پولیس ان کی نقل و حرکت پر نظر رکھ سکے۔
یہ پوچھے جانے پر کہ اس سے کیا فرق پڑے گا کیونکہ جماعت اسلامی صرف ۱۰ نشستوں پر انتخاب لڑ رہی ہے اور اپنے امیدواروں کو وزیر اعلیٰ منتخب نہیں کرا سکتی، جماعت کے ایک غیر سرکاری مشیر شمیم ڈار نے اعتراف کیا’’جماعت کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار یقینی طور پر حکومت تشکیل نہیں دے سکیں گے کیونکہ آپ کو اکثریت کیلئے ۴۵ نشستوں کی ضرورت ہے۔ لیکن ہاں، ہم جموں کشمیر اسمبلی کے نتیش کمار یا چندرا بابو نائیڈو بن سکتے ہیں۔ ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ جموں و کشمیر میں ہماری حمایت کے بغیر کوئی حکومت نہیں بنے گی‘‘۔
جماعت اسلامی کے رہنما کبھی جموں و کشمیر کے سیاسی میدان میں ایک طاقت ہوا کرتے تھے۔
۱۹۸۷میں جماعت نے محسوس کیا کہ نئی دہلی میں راجیو گاندھی حکومت نے اسمبلی انتخابات میں دھاندلی کی تاکہ فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس سرینگر میں حکومت تشکیل دے سکے۔
عوامی اتحاد پارٹی کے سربراہ انجینئر رشید نے کھلے عام کشمیریوں سے جماعت اسلامی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کی حمایت کرنے کی اپیل کی ہے اور اعلان کیا ہے کہ وہ اپنی جماعت کے ارکان سے کہیں گے کہ وہ انتخابات میں جماعت کے امیدواروں کی حمایت کریں۔
عوامی اتحاد پارٹی اور جماعت اسلامی وادی کشمیر کی تمام ۴۷ نشستوں پر اتحاد یا دوستانہ مقابلے میں مقابلہ کر رہے ہیں۔
اس اتحاد نے نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی قیادت کی صفوں میں ہلچل مچا دی ہے کیونکہ انہیں ڈر ہے کہ یہ آزاد امیدوار ان کے ووٹ بینک کو متاثر کریں گے۔
پی ڈی پی کی صدر محبوبہ مفتی نے گزشتہ ہفتے پلوامہ میں ایک ریلی کے دوران جماعت اسلامی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں پر حملہ کرتے ہوئے کہا تھا’’حقیقی جماعت کے رہنما سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ اگر حکومت ہند چاہتی ہے کہ حقیقی جماعت اسلامی الیکشن لڑے تو اسے جماعت اسلامی پر عائد پابندی ختم کرنی چاہیے‘‘۔
محبوبہ مفتی کے بیان کے بارے میں پوچھے جانے پر ریشی نے کہا کہ کشمیر میں جماعت اسلامی بی جے پی کی پراکسی نہیں ہے۔
ان کاکہنا تھا’’ستم ظریفی دیکھئے جب بی جے پی حکومت نے ہم پر پابندی لگا دی تھی، تو ان جماعتوں نے جماعت کے حق میں بات کی تھی۔ اب جب ہم آزاد انہ طور پر الیکشن لڑ رہے ہیں تو وہی پارٹیاں ہمیں بی جے پی کا ایجنٹ کہہ رہی ہیں۔ کشمیری ووٹر اب سیاسی طور پر پختہ ہو چکے ہیں۔ وہ اس طرح کے جھوٹ کا شکار نہیں ہوں گے‘‘۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا کشمیر میں عسکریت پسندی واپس آئے گی، ریشی کہتی ہیں’’نہیں، یہ واپس نہیں آئے گی۔۱۹۸۷ کے انتخابات میں دھاندلی عسکریت پسندی کا باعث بنی۔ جذبات کا استحصال کیا گیا۔ نیشنل کانفرنس کشمیر میں عسکریت پسندی کی اصل گنہگار ہے۔ کشمیر کے قبرستان یہ سچ بتائیں گے۔ اگر انتخابات میں دھاندلی نہ ہوتی تو ۱۹۸۷ میں جماعت کا اپنا وزیر اعلیٰ ہوتا‘‘۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا جنوری۱۹۹۰ میں کشمیری پنڈتوں کو وادی سے باہر نکالنے کے لئے جماعت اسلامی ذمہ دار نہیں تھی، ریشی کہتی ہیں’’ہم نے یقینی طور پر مساجد میں اذان دی، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم نے کشمیری پنڈتوں کو کشمیر سے باہر نکال دیا۔ اس کے برعکس جماعت اسلامی نے ہمیشہ کشمیری پنڈتوں کی حفاظت کی ہے‘‘۔
ان کاکہنا تھا’’جو شال میں انتخابی ریلیوں کے دوران پہنتا ہوں‘مجھے کولگام کے ایک کشمیری پنڈت لڑکے نے تحفے میں دیا تھا۔‘‘