نئی دہلی/۱۴مارچ
لوک سبھا میں اپوزیشن نے آج الزام لگایا کہ جس مقصد کے لیے مرکزی حکومت نے اگست۲۰۱۹میں جموں و کشمیر کی ہیئت بدلی تھی وہ پوری طرح ناکام ہوگئی ہے ، جب کہ حکمراں جماعت نے دعویٰ کیا ہے کہ مودی حکومت کے فیصلوں کی وجہ سے جموں وکشمیر کی قسمت کھل گئی ہے ۔
وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے لوک سبھا میں دوپہر کے کھانے کے وقفے کے بعد بجٹ اور سال۲۳۔۲۰۲۲کے لیے گرانٹس کے مطالبات اور جموں و کشمیر کیلئے سال ۲۲۔۲۰۲۱کے ضمنی مطالبات پیش کیے ۔
اس پر کانگریس کے منیش تیواری اور ریوولیوشنری سوشلسٹ پارٹی (آر ایس پی) کے این کے پریما چندرن نے مخالفت کی کہ کسی بھی یونین ٹیریٹری کا بجٹ پارلیمنٹ میں کیوں پاس کیا جا رہا ہے ، اگر ایسا ہے تو کیا حکومت نے دیگر یونین ٹیریٹریوں کا بجٹ بنایا ہے ، اس پر بھی بات کریں گے ۔ مسٹر پریم چندرن نے لداخ کے بجٹ کے بارے میں بھی سوال کیا۔
اس پر حکمراں جماعت اور اپوزیشن کے درمیان کافی بحث و مباحثے کے بعد صدارتی چیئرمین بھرتری ہری مہتاب نے حکم دیا کہ جس یونین ٹیریٹری کے قانون ساز ایوان معلق حالت میں ہے ان کے بجٹ پر پارلیمنٹ میں بحث کی جائے ۔ انہوں نے سال۲۲۔۲۰۲۱کے ضمنی مطالبات پر بحث پر اپوزیشن کے اعتراضات کو بھی مسترد کردیا۔
بحث کا آغاز کرتے ہوئے منیش تیواری نے اس بات پر بھی اعتراض کیا کہ انہیں ایوان میں بحث سے تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ قبل ۵۴:۱۲ پر بجٹ پیپر موصول ہوئے تھے ۔ ایسی حالت میں کسی بھی انسان کیلئے سات کتابیں پڑھنا ممکن نہیں۔
تیواری نے کہا کہ اگست ۲۰۱۹میں جموں کشمیر کو تقسیم کرنے اور مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنانے کے فیصلے سے متعلق جو دلائل دیے گئے تھے وہ ۳۳ماہ گزرنے کے بعد بھی اپنی کامیابی نہیں دکھا رہے ہیں۔ لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے ۔
کانگریسی لیڈر نے کہا کہ مشرقی لداخ کی صورتحال انتہائی حساس ہے ۔ چینی فوج ملک کی سرزمین میں گھس چکی ہے ۔ ادھر پاکستانی وزیر اعظم کے دورہ روس کے بعد سرحد پر صورتحال پیچیدہ ہو گئی ہے ۔ چین اور روس کے درمیان مشترکہ معاہدہ طے پا گیا ہے ۔ حکومت کو اس کی فکر کرنی چاہیے ۔
تیواری نے حکومت سے سوال کیا کہ کیا ۲۰۱۹سے دہشت گردی کی سرگرمیوں میں مقامی نوجوانوں کی شمولیت میں اضافہ ہوا ہے ؟ اگر ایسا ہے تو یہ انتہائی تشویشناک بات ہے ۔
کانگریسی لیڈر نے کہا کہ اگست ۲۰۱۹میں وزیر اعظم نریندر مودی اور اکتوبر۲۰۲۰میں وزیر داخلہ امت شاہ نے پارلیمنٹ میں یقین دہانی کرائی تھی کہ جموں و کشمیر کو ریاست کا درجہ بحال کیا جائے گا۔ لیکن اب۲۰۲۲آگیا‘ یہ یقین دہانی کب پوری ہوگی؟
کانگریس لیڈر نے کہا کہ نئے اسمبلی حلقے بنائے جا رہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی ضرورت ہے ۔ ریزرویشن کے بعد باہر رہ گئے زمروں کو جگہ دینے کی ضرورت ہے ۔ سکھ اقلیتوں کیلئے اسمبلی میں نشستیں ریزرو کرنے کی ضرورت ہے ۔
تیواری نے کہا کہ جموں کشمیر میں صنعت کی ترقی میں کمی کی وجہ سے بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے اگست۲۰۱۹میں جس’نظریاتی مقصد‘کے تحت چلی تھی وہ ناکام ہوگئی ہے ۔ بجٹ میں ۷۳فیصد محکمہ داخلہ سے متعلق ہے ، یعنی سیکیورٹی پر اتنا بڑا خرچ اس بات کا ثبوت ہے کہ حالات بہتر نہیں ہوئے ۔
بحث کے دوران مداخلت کرتے ہوئے وزیر اعظم کے دفتر میں وزیر مملکت اور ادھم پور کے رکن پارلیمنٹ جتیندر سنگھ نے کہا کہ ۲۰۱۹کے بعد جموں و کشمیر میں غیر معمولی تبدیلی آئی ہے ۔ان کاکہنا تھا’’ دہشت گردی کے دور میں جو لوگ اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے ، حکومت نے ان لوگوں کو اپنے گھروں کو واپس لانے کے اقدامات کئے ہیں۔ کوئی بھی اپنا گھر چھوڑنا نہیں چاہتا لیکن لوگ وہاں سے بھاگنے پر مجبور کئے گئے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر جتندرنے کہا کہ یونین ٹیریٹری بننے سے پہلے جو بھی قوانین تھے ، انہیں ختم کر دیا گیا ہے اور گزشتہ ڈیڑھ سال میں وہاں احتساب کو یقینی بنانے کی کوشش کی گئی ہے ۔
مرکزی قزیر کاکہنا تھا’’ کرپشن پر کریک ڈاؤن کیا گیا ہے ۔ مرکز سے جو رقم جاتی ہے اس کا پوری طرح سے ریاست کی ترقی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے ۔ پہلے یہ رقم وزیر اعلیٰ کے دفتر جاتی تھی پھر کسی اسکیم کے لیے دی جاتی تھی جس کی وجہ سے ترقیاتی کاموں کو رفتار نہیں مل پاتی تھی‘‘۔