نئی دہلی//
ہندوستانی معیشت کی بنیاد کو مضبوط اور عالمی ہلچل کا مقابلہ کرنے کے قابل قرار دیتے ہوئے اقتصادی سروے۲۴۔۲۰۲۳میں پیر کو کہا گیا کہ موجودہ مالی سال میں حقیقی مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح نمو۵ے۶سے۷فیصد تک رہنے کا تخمینہ ہے ۔
وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے آج پارلیمنٹ میں اقتصادی سروے پیش کیا جس میں کہا گیا ہے کہ خطرات کافی حد تک متوازن ہیں اور مارکیٹ کی توقعات کافی زیادہ ہیں۔ مختلف بیرونی چیلنجوں کے باوجود، مالی سال۲۳۔۲۰۲۲میں حاصل کردہ ہندوستانی معیشت کی ترقی کی تیز رفتاری مالی سال ۲۴۔۲۰۲۳میں بھی برقرار رہی۔ میکرو اکنامک استحکام پر توجہ نے اس بات کو یقینی بنایا کہ بیرونی چیلنجوں کا ہندوستانی معیشت پر کم سے کم اثر پڑا۔ مالی سال۲۴۔۲۰۲۳میں حقیقی جی ڈی پی کی شرح نمو۲ء۸فیصد رہی، مالی سال۲۴۔۲۰۲۳کی چار سہ ماہیوں میں سے تین سہ ماہیوں میں شرح نمو آٹھ فیصد سے زیادہ رہی۔
سروے میں کہا گیا ہے کہ وبائی مرض سے صحت یاب ہونے کے بعد ہندوستانی معیشت منظم انداز میں پھیلی ہے۔ مالی سال۲۴۔۲۰۲۳میں حقیقی جی ڈی پی مالی سال۲۰۔۲۰۱۹کے مقابلے میں۲۰فیصد زیادہ ہوگی، یہ کارنامہ صرف چند بڑے ممالک نے حاصل کیا ہے ۔ سپلائی کے محاذ پر مجموعی ویلیو ایڈڈ (جی وی اے ) کی شرح نمو مالی سال ۲۴۔۲۰۲۳میں۲ء۷فیصد۱۲۔۲۰۱۱کی قیمتوں پر) رہی اور مستقل قیمتوں پر خالص ٹیکس وصولیوں میں مالی سال۲۴۔۲۰۲۳میں ۱ء۱۹فیصد اضافہ ہوا۔ مارچ۲۰۱۴میں ختم ہونے والے مالی سال میں۲ء۸فیصد کی اقتصادی ترقی کی شرح میں۵ء۹فیصد کی صنعتی شرح نمو نے نمایاں کردار ادا کیا۔
سروے میں کہا گیا ہے کہ’امرت کال‘میں یہ چھ اہم توجہ مرکوز کرنے والے شعبے ہیں جن میں نجی سرمایہ کاری کو فروغ دینا، ایم ایس ایم ای کو بڑھانا، زراعت کو ترقی کا انجن بنانا، گرین ٹرانزیشن پلان کو فنڈ دینا، تعلیم اور روزگار کے درمیان خلیج کو ختم کرنا، ریاستوں کی صلاحیت سازی کرنا شامل ے ۔ اس میں کہاگیا ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ (سی اے ڈی) مالی سال۲۰۲۴کے دوران جی ڈی پی کا۷ء۰فیصد رہا، جو مالی سال۲۳۔۲۰۲۲میں ریکارڈ کیے گئے جی ڈی پی کے۰ء۲فیصد سی اے ڈی سے کم ہے ۔
کل ٹیکس وصولی کا۵۵فیصد براہ راست ٹیکسوں سے اور بقیہ۴۵فیصد بالواسطہ ٹیکسوں سے آتا ہے ۔ حکومت ۴ء۸۱کروڑ لوگوں کو مفت اناج فراہم کرنے میں کامیاب رہی ہے ۔ سرمایہ دارانہ اخراجات کے لیے مختص کل اخراجات میں مسلسل اضافہ ہوا ہے ۔
اس میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان کے بینکنگ اور مالیاتی شعبوں نے مالی سال۲۴۔۲۰۲۳میں مضبوط کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے ۔ مجموعی طور پر، افراط زر کو کنٹرول میں رکھنے کے ساتھ آربی آئی نے پورے مالی سال کے دوران پالیسی شرح میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ مانیٹری پالیسی کمیٹی (ایم پی سی) نے مالی سال۲۰۲۴میں پالیسی ریپو ریٹ کو۵ء۶فیصد پر برقرار رکھا۔ ترقی کی رفتار کو تیز کرنے کے ساتھ ساتھ افراط زر کی شرح کو بتدریج مقررہ ہدف کے مطابق لایا گیا۔ تجارتی بینکوں (ایس سی بی) کے قرض کی تقسیم مارچ۲۰۲۴کے آخر میں۲ء۲۰فیصد کے اضافے کے ساتھ۳ء۱۶۴لاکھ کروڑ روپے رہی۔ ایچ ڈی ایف سی بینک میں ایچ ڈی ایف سی کے انضمام کے اثرکو چھوڑ کر براڈ منی (ایم۳)کی شرح نمو۲۲مارچ۲۰۲۴کو۲ء۱۱فیصدتھی (سالانہ بنیادوں پر) جب کہ ایک سال پہلے یہ شرح نمو صرف نو فیصد تھی۔ بینک قرضوں میں دوہرے ہندسوں میں اضافہ ہوا، جو کہ بہت وسیع تھا، مجموعی اور خالص نان پرفارمنگ اثاثے یعنی پھنسے ہوئے قرض برسوں کی کم ترین سطح پر رہے ، بینک کے اثاثوں کا معیار بہتر ہونا یہ ظاہر کرتا ہے کہ حکومت مضبوط اور مستحکم بینکنگ سیکٹر کو لے کر پرعزم ہے ۔
قرضوں میں نمو اب بھی مضبوط ہے ، سروسز لون اور ذاتی قرضے اہم شراکت دار ہیں۔
زراعت اور اس سے منسلک سرگرمیوں کو ملے قرض مالی سال۲۰۲۴کے دوران دوہرے ہندسوں میں بڑھ گئے ۔
سروے میں بتایا گیا کہ صنعتی قرضوں کی شرح نمو ۵ء۸فیصد رہی جب کہ ایک سال قبل یہ شرح نمو صرف۲ء۵فیصد تھی۔ آئی بی سی کو پچھلے آٹھ سالوں میں ٹوین بیلنس شیٹ کے مسئلے کا ایک مؤثر حل سمجھا گیا ہے ۔ مارچ۲۰۲۴تک۹ء۱۳لاکھ کروڑ روپے قیمت والے۳۱۳۹۴کارپوریٹ قرض دہندگان کے معاملات نمٹائے گئے ۔
پرائمری کیپٹل مارکیٹس میں مالی سال ۲۴۔۲۰۲۳کے دوران۹ء۱۰لاکھ کروڑ روپے سرمایہ کی تخلیق رہی (یہ مالی سال۲۰۲۳کے دوران نجی اور سرکاری کمپنیوں کا مجموعی استحکام سرمایہ تخلیق کا تقریباً۲۹فیصد ہے )۔ ہندوستانی اسٹاک مارکیٹ کی مارکیٹ کیپٹلائزیشن میں نمایاں اضافہ ہوا ہے ، مارکیٹ کیپٹلائزیشن،جی ڈی پی کا تناسب دنیا میں پانچویں سب سے زیادہ سطح پر ہے ۔
اس میں کہا گیا ہے کہ مالی شمولیت صرف ایک مقصد نہیں ہے بلکہ اس سے پائیدار اقتصادی ترقی کو یقینی بنانے ، عدم مساوات کو کم کرنے اور غربت کے خاتمے میں بھی مدد ملتی ہے ۔ اگلا بڑا چیلنج ڈیجیٹل مالیاتی شمولیت (ڈی ایف آئی) ہے ۔ قرضوں کو بینکنگ سپورٹ کا غلبہ بتدریج کم ہو رہا ہے اور کیپٹل مارکیٹوں کا کردار بڑھ رہا ہے ۔ چونکہ ہندوستان کا مالیاتی شعبہ بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کا مشاہدہ کر رہا ہے ، اس لئے اسے ممکنہ عدم تحفظ یا خطرات سے نمٹنے کے لیے تیار رہنا چاہیے ۔ اس میں آنے والی دہائیوں میں ہندوستانی انشورنس مارکیٹ کو سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی انشورنس مارکیٹوں میں سے ایک بتاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ملک کا مائیکرو فنانس سیکٹر چین کے بعد دنیا کا دوسرا سب سے بڑا مائیکرو فنانس سیکٹر بن کر ابھرا ہے ۔
اقتصادی سروے ایک سالانہ دستاویز ہے جو حکومت کی طرف سے مرکزی بجٹ سے پہلے معیشت کی حالت کا جائزہ لینے کے لئے پیش کیا جاتا ہے۔
دستاویز میں معیشت کے قلیل سے درمیانی مدت کے امکانات کا جائزہ بھی فراہم کیا گیا ہے۔اقتصادی سروے وزارت خزانہ میں محکمہ اقتصادی امور کے اکنامک ڈویڑن کی جانب سے چیف اکنامک ایڈوائزر کی نگرانی میں تیار کیا جاتا ہے۔
پہلا اقتصادی سروے۱۹۵۰۔۱۹۵۱ میں وجود میں آیا جب یہ بجٹ دستاویزات کا حصہ ہوا کرتا تھا۔۱۹۶۰کی دہائی میں، اسے مرکزی بجٹ سے الگ کر دیا گیا تھا اور بجٹ پیش کرنے سے ایک دن پہلے پیش کیا گیا تھا۔