افغانستان، ایران اور چند دوسرے ممالک کے بعد اب افریقی ممالک سے مختلف اقسام کے میوئوں کی درآمد اور ان کی ملک کی منڈیوں اور بازاروں میں کھپت نے جموں وکشمیر باالخصوص کشمیر کی میوہ صنعت کو ایک اور سنگین نوعیت کے چیلنج سے ہم کنار کردیا ہے۔ مختلف وجوہات کی بنا پر کہاجاسکتا ہے شاید کشمیر کی میوہ صنعت آئے روز کے ان اُبھر رہے چیلنجوں سے عہدہ برآں نہیں ہوگی بلکہ ہرگذرتے دن کے ساتھ کشمیرکی میوہ صنعت انحطاط کی طرف گامزن ہوتی رہیگی۔
یوں بھی کشمیرکی میوہ صنعت کو ہماچل وغیرہ حصوں سے کئی ایک چیلنجوں کا سامنا ہے ، کیونکہ ہماچل سمیت دوسرے علاقوں کی میوہ صنعت کو بہتر موسمی حالات، مارکیٹنگ کی سہولیات، جدید ٹیکنالوجی اور وسائل کی فرواوانی وغیرہ حاصل ہیں جن سہولیات سے فی الوقت کشمیر کی میوہ صنعت قدرے محروم ہے۔اس محرومی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس صنعت سے وابستہ خود باغ مالکان کی تمام تر توجہ اور توانائی زیادہ سے زیادہ فصل حاصل کرکے سرمایہ بٹورنے پر ہی مرکوز ہے لیکن اپنی اس صنعت کو بہتر سہولیات دستیاب رکھنے، جدید ٹیکنالوجی حاصل کرنے، ماہرین کی خدمات سے استفادہ حاصل کرنے، کلٹ فروٹ کی درجہ بندی کرکے اسے شربتوں میں ڈھالنے، مارکیٹنگ کے حوالہ سے دستیاب بازار اور منڈیوں کو مستحکم بنانے اور نئے بازاروں اور منڈیوں کو تلا ش کرنے، فروٹ کی مختلف اقسام کو بہتر سے بہتر بنانے کی سمت میں کوئی توجہ نہیں دے رہے ہیں۔
کشمیر میوہ جب منڈیوں کی وساطت سے گھروں تک پہنچ جاتا ہے تو ایک تہہ کچھ، دوسرا کچھ اور تیسرا کچھ کی بھی خصوصیات کا حامل نہیں ہوتا، میوہ صنعت سے وابستہ باغ مالکان اور ڈبوں میں بھرائی کرنیو الے کارکن اس حوالہ سے خود کو کسی ضابطہ اخلاق، دیانتداری اور جواب دہی سے مستثنیٰ سمجھ رہے ہیں لیکن جب اس ایک اور طرزعمل کے حوالہ منڈیوں میں بھائو گر جاتے ہیں تو یہی لوگ سڑکوں پر مرثیہ خوان صورت میں نظرآتے ہیں اور ان کی سرپرست یا وابستگی رکھنے والی سیاسی جماعتیں بیانات کے میزائل داغ کر کبھی حکومت سے معاوضہ طلب کرتے ہیں تو کبھی حالات کے موافق دوسرے مطالبات پیش کرتے ہیں۔
کشمیر کا میوہ کبھی کسی زمانے میں خوبصورت مزیدار ، تمام تر قدرتی خوبیوں سے مزین شمار کیاجاتا تھا لیکن اب میوہ کا کوئی بھی قسم ہاتھ میں اُٹھائے وہ خوبصورت یعنی شکل وشبہات کے حوالہ سے دکھائی تو دے رہا ہے لیکن لذت میں صفر ، پرانے میوہ اقسام کی جگہ ہائی برڈ کے نام پردُنیا بھر کی غلاظت کو کشمیر پر مسلط کردیا گیا ہے، جس میں وقت وقت کی حکومتوں نے بھی بڑھ چڑھ کر کرداراداکیا، اس حوالہ سے پیسہ تو خوب وصولا جارہا ہے لیکن کشمیرکے میوہ کی جو خصوصیات تھیں وہ اب کہیں نظرنہیںآرہی ہیں۔
کشمیر کی میوہ صنعت کی تباہی وبربادی کی سمت میں جہاں خود کچھ باغ مالکان کا بڑا کرداراور عمل دخل رہا ہے وہیں جراثیم کش ادویات کے نام پر کچھ مخصوص اجارہ دار سٹاکسٹوں اور مختلف دوا ساز کمپنیوں کے فرنچائزرس نے جن جراثیم کش ادویات کو بازار میں متعارف کرایا وہ اصل میں جراثیم کش ادویات کے نام پر ایسا زہر بتدریج ثابت ہوا جو کشمیرکی میوہ صنعت کی بنیاد بربادی اور تباہی کا موجب بنتا رہا۔ ایک جراثیم کش ادویہ کے منفی اثرات کو زائل کرنے کیلئے دوسرا جراثیم کش ادویہ بازارمیں لایاجاتا رہا جو پہلے کے برعکس اور زیادہ زہریلا اور منفی ثابت ہوتاگیا۔ پہلے ایک یا دو دوا پاشیوں کی ضرورت پڑتی تھی لیکن اب متعدد بار دوا پاشیوں کا سہارا لینا پڑرہاہے۔
کشمیر کی میوہ صنعت کی اس تباہی وبربادی کے اصل ہاتھ کون ہیں وہ کشمیرمیں زبان زدہ عام ہے۔ جبکہ ان سے منسوب طرح طرح کے قصے او رکہانیاں بھی الف لیلا مجنون کی داستانوں کی طرز پر سنی اور سنائی جارہی ہے۔
جموںوکشمیر ایڈمنسٹریشن سے لے کر دہلی ایڈمنسٹریشن تک سبھی مسلسل دعویٰ کررہے ہیں کہ میوہ صنعت کی ترقی کی سمت میں ہر وہ قدم اُٹھایا جاتا رہا ہے جو کشمیرمیں میوہ صنعت کی ترقی کیلئے لازم ہے۔ بے شک یہ دعویٰ زمینی حقائق کی کسوٹی پر صحیح اُتر رہے ہیں۔ میوہ صنعت کی پیداوارمیں مسلسل اضافہ ہورہا ہے لیکن تلخ زمینی حقیقت یہ بھی ہے کہ پیداوار میںاضافہ نے باغ مالکان کو لکھ پتی اور کروڑ پتی تو بنادیا لیکن کشمیر کا اوسط شہری اُس میوہ فصل اور لذت سے مکمل طور سے محروم ہوچکا ہے جو کبھی کشمیر کی میوہ صنعت کا طرۂ امتیاز تصور کیا جاتا تھا۔ مختلف ممالک سے ہائی برڈ درختوں کی امپورٹ کو ترجیحی سیکٹر میں رکھنے اور مختلف ممالک سے میوہ کیلئے ملک کی منڈیوں کے در وازے کھولنے کی حکومتی پالیسی اب بتدریج کشمیرکی میوہ صنعت کو تباہی کی طرف لے جارہی ہے۔
اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ کشمیرکے میوہ کو اب زیادہ تحفظ حاصل نہیں ہے۔ اگر خدانخواستہ صورتحال یہی رہی تو مستقبل کے حوالہ سے اندیشہ ہائے لاحق محسوس ہورہے ہیں ۔ کشمیر کی متوازی معیشت کا یہ پہیہ رُک جائیگا ردعمل میں میوہ صنعت سے وابستہ لاکھوں افراد روزگار سے محروم ہوتے جائیں گے۔ افغانستان کے میوہ کو منڈیوں تک رسائی دینے سے حاصل کیا ہوگا؟ جو سرمایہ واپسی میں افغانستان کوحاصل ہورہاہے خدشہ ہے کہ اس کا بیشتر حصہ دہشت گردوں کی اُس سرزمین پر موجود مختلف نظریات اور عقائد کے حامل دہشت گردوں کے ہاتھ پہنچ جائے گا۔
اس مخصوص ملک کی منشیات کی پیداوار کا ایک اچھا خاصہ حصہ کشمیر تک پہنچا یا جارہاہے اور بجائے اس کی روک تھام کے میوہ کے نام پر اُس ملک کو سرمایہ فراہم کرکے حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔