نئی دہلی//
وزیر اعظم ‘نریندر مودی نے فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس سے بات کر کے غزہ کے الاحلی ہسپتال پر بمباری کے بعد جانی نقصان پر تعزیت کا اظہار کیا ہے۔
سوموار کے روز ہسپتال میں سینکڑوں افراد کی موت ہو چکی ہے، جس سے عرب دنیا میں مظاہرے شروع ہو گئے ہیں اور اسرائیل کی طرف سے انکار کا سلسلہ جاری ہے، جسے راکٹ حملے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔
غزہ میں صحت کے حکام نے کہا کہ ہسپتال میں ہونے والے دھماکے میں ۲۰۰ سے۳۰۰کے درمیان لوگ مارے گئے اور یہ اسلامی گروپ کے۷؍اکتوبر کو ہونے والے حملے کے جواب میں اسرائیلی فضائی حملے کی وجہ سے ہوا۔
وزیر اعظم مودی نے’ایکس‘پر پوسٹ کیا’’فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس سے بات کی۔ غزہ کے الاحلی اسپتال میں شہریوں کی جانوں کے ضیاع پر میں نے تعزیت کی۔ ہم فلسطینی عوام کے لیے انسانی امداد بھیجتے رہیں گے۔ دہشت گردی پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا، تشدد اور خطے میں سیکورٹی کی بگڑتی ہوئی صورتحال۔ اسرائیل-فلسطین کے مسئلہ پر ہندوستان کے دیرینہ اصولی موقف کا اعادہ کیا‘‘۔
فلسطینیوں کی حمایت میں پی ایم مودی کی یہ دوسری پوسٹ تھی۔ہندوستان روایتی طور پر فلسطینی کاز کی حمایت کرتا آیا ہے ‘ لیکن حال ہی میں، ہندوستان اور اسرائیل نے بھی دو طرفہ تعلقات کو مضبوط کیا ہے، خاص طور پر۲۰۱۷ میں پی ایم مودی کے یہودی قوم کے دورے کے بعد۔
اس بار، منگل کو ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں، پی ایم مودی نے کہا کہ ان کو اس حملے میں ہونے والی اموات سے’گہرا صدمہ‘ ہوا اور ہلاک ہونے والوں کے اہل خانہ سے تعزیت کا اظہار کیا ہے۔
یہ پہلا موقع ہے جب پی ایم مودی نے۷؍ اکتوبر کو اسرائیل میں حماس کے غیر متوقع حملے کے بعد اسرائیل،حماس جنگ شروع ہونے کے بعد فلسطینی حکام سے بات کی۔
پی ایم مودی نے اسرائیل کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا اور اس سے قبل اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو سے بات کی۔ بدھ کے روز، پی ایم مودی نے غزہ میں ایک ہسپتال پر حملے میں مبینہ طور پر ہزاروں افراد کے مارے جانے کے بعد جاری تنازعہ میں شہری ہلاکتوں پر صدمے اور تشویش کا اظہار کیا۔ کسی نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی حالانکہ اسرائیلی دفاعی افواج نے ایک تجزیاتی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے یہ ثابت کیا کہ یہ حملہ فلسطینی اسلامی جہاد کے ایک غلط راکٹ کا نتیجہ تھا، جسے اسرائیل اور امریکہ نے دہشت گرد قرار دیا ہے۔
وزارت خارجہ نے پہلے کہا تھا کہ ہندوستان فلسطین کی ایک خودمختار اور قابل عمل ریاست کے قیام کے لیے دیرینہ حمایت میں یقین رکھتا ہے۔
ترجمان ارندم باگچی نے کہا’’ہندوستان نے ہمیشہ فلسطین کی ایک خودمختار اور قابل عمل ریاست کے قیام کے لیے براہ راست مذاکرات کی بحالی کی وکالت کی، جو محفوظ اور تسلیم شدہ سرحدوں کے اندر رہتے ہوئے، اسرائیل کے ساتھ امن کے ساتھ شانہ بشانہ رہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ پوزیشن وہی رہے گی۔‘‘