کرگل میں ووٹوں کی گنتی کے دوران مراکز پر لوگوں کا جوش وخروش اور ہر نتیجہ کے اعلان پر تالیوں کی گونج میں استقبال بجائے خود بہت سارے پیغامات دے رہے تھے۔ لوگوں کے اس جوش وخروش کی وجوہات بھی ہیں اور تجزیہ کیاجائے تو کئی ایک پوشیدہ پہلو بھی سامنے آجائیں گے۔
کرگل ہل کونسل کی ۲۶؍ نشستوں کے منعقدہ انتخابات میں بھی لوگوںنے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اپنے پسند کے مطابق اُمیدواروں کے حق میں اپنا حق رائے دہی کا استعمال کیا۔ نیشنل کانفرنس اور کانگریس نے نتائج کے مطابق حتمی جیت درج کرلی ہے۔نیشنل کانفرنس کی ۱۲؍اور کانگریس کی ۱۰؍نشستوں پر کامیابی نے دونوں پارٹیوں اور ان کی قیادتوں کی جھولیوں میں ڈھیر ساری خوشیاں ڈالی ہیں۔ یہ تو کہانہیں جاسکتا کہ اتنی بڑی کامیابیاں ان کی توقعات کے مطابق ہیں یا تو قعات کے برعکس ، لیکن آئین کی دفعہ ۳۷۰؍ اور ۳۵؍ اے کے خاتمہ کے بعد منعقدہ ان انتخابات نے ان پارٹیوں کی عوامی مقبولیت پر نہ صرف مہر تصدیق ثبت کرلی ہے بلکہ کئی ایک پیغامات بھی دیئے ہیں۔
کانگریس کی قیادت نے اپنے ۲۲؍ میں سے ۱۰؍ اُمیدواروں کی کامیابی کو اپنے لیڈر اور سابق صدر راہل گاندھی کی بھارت جوڈو یاترا کا ثمرہ قراردیا ہے جبکہ نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے اسے پارٹی کی عوامی مقبولیت ، پارٹی کی پالیسیوں بشمول جمہوریت پر غیر متزلزل یقین اور عوام کی خدمت کا جذبہ قرار دیتے ہوئے مزید کہا ہے کہ یہ نتائج حکمران جماعت بی جے پی کیلئے ایک واضح پیغام ہے کہ جس نے نہ صرف ریاست کو تقسیم کیا بلکہ اُس حوالہ سے اختیار کئے غیر آئینی اور غیر جمہوری طرزعمل کو بھی مسترد کردیا ہے ۔ عمر نے مزید کہا کہ بی جے پی کیلئے یہ وقت ہے کہ وہ خود کو راج بھون کے پیچھے چھپنے کے بجائے جموں وکشمیر میں عوام کی منتخبہ حکومت کی تشکیل کے جمہوری حق کو تسلیم کرے۔
کانگریس کے مقامی لیڈر ناصر حسین منشی جو خود بھی ایک نشست سے کامیاب ہوئے ہیں نے اپنی پارٹی اور این سی پر مشتمل گٹھ بندھن کی کامیابی کو بہت بڑی کامیابی قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ پارلیمانی الیکشن میںبی جے پی کا صفایا یقینی ہے ۔ اپوزیشن سے وابستہ کئی دوسری پارٹیوںنے اپنے اپنے نظریہ اور موقف کے مطابق ردعمل کا اظہار کیا ہے البتہ کشمیر نشین پیپلز کانفرنس، اپنی پارٹی کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا اور نہ ہی بی جے پی، جس کے لداخ سے وابستہ ممبر پارلیمنٹ نے الیکشن مہم کے دوران اور کل جب ووٹوں کی گنتی ہورہی تھی دعوے کیا تھا کہ ان کی پارٹی بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرے گی لیکن پارٹی کو صرف ۲؍حلقوں سے کامیابی ملی کسی ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
ان الیکشن نتائج پر کون کیا کہہ رہا ہے اور کس نوعیت کا ردعمل اب تک سامنے آیا ہے یا آنے والے دنوں میں آتا رہے گا قطع نظر اُس کے ان نتائج نے ملک کے الیکشن کمیشن کیلئے بھی کئی ایک سوالات کو لے کر بہت بڑا لمحہ فکریہ کھڑا کیا ہے۔ جبکہ لداخ ایڈمنسٹریشن کے اُس رویہ اور طریقہ کار کو بھی لوگوں نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرکے زمین بوس کرکے رکھدیا ہے جس طریقہ کار اور طرز عمل کا مذکورہ ایڈمنسٹریشن نے قدم قدم پر روارکھا، کبھی چنائو نشانات کو لے کر جھگڑا اور رخنہ انداز ہونے کی کوشش کی تو کبھی کوئی اور غلط راستہ اختیارکیا، لیکن ہر مرتبہ عدلیہ مداخلت کرکے لداخ ایڈمنسٹریشن کی غلط رخنہ اندازیوں کو غلط ، غیر جمہوری اور غیر آئینی قرار دے کر مسترد کرتی رہی۔
الیکشن کمیشن نے پانچ ریاستوں کیلئے انتخابات کا اعلان توکیا لیکن جموں وکشمیرمیں الیکشن منعقد کرانے کی سمت میں اپنے مسلسل انکار کے تناظرمیں اپنے ہی طرزعمل کے حوالہ سے سوالات کے کٹہرے میںکھڑا کردیا ہے۔چیف الیکشن کمشنر نے جموں کشمیر کیلئے’’ مناسب‘‘ وقت پر الیکشن کرانے کا فتویٰ صادر کیا۔اُن سبھی ریاستوںمیں منافرت اور نفرت آمیز بیانات کا طوفان ہے، کئی ناخوشگوار معاملات بھی سامنے آرہے ہیں یا ماضی قریب میں آچکے ہیں ، آبادی کے مختلف طبقوں کے درمیان کشیدگی اور عدم رواداری کا ماحول ہے لیکن ان معاملات کو الیکشن کمیشن حساسیت یا سکیورٹی کے حوالہ سے سنگین چیلنجوں سے عبارت تصور نہیں کررہاہے بلکہ انتخابات کا اہتمام کرکے عوام کے جمہوری حق کو تسلیم کرکے اپنی انانیت اور سیاسی مصلحتوں، جوکچھ بھی ہوں، کو آڑے نہیں آنے دیا۔ لیکن جموں وکشمیرمیں انتخابات کا انعقاد اس کے ایجنڈا پر نہیں ۔
کرگل ہل کونسل کے نتائج کا دوسرا توجہ طلب پہلو یہ بھی ہے کہ نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے سابق ممبران کونسل کی کاکردگی عوام کیلئے بحیثیت مجموعی اطمینان بخش رہی۔ اگر سابق کونسل اور اس سے وابستہ ارکان کی کارکردگی ناقص رہی ہوتی تو لوگ ضرورا ن سے بدظن اور متنفر ہوتے اور ہر گز ان کے حق میں دوبارہ اپنی حق رائے دہی کا استعمال نہیں کرتے۔ لیکن دونوں پارٹیوں کی کامیابیوں سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ کرگل میں مایوس کن کارکردگی یا ناتسلی بخش کارکردگی کا کوئی پہلو عوام کے زیر توجہ نہیں تھا۔
بہرحال الیکشن مہم اور نتائج کے حوالہ سے منظرنامہ اب جبکہ مکمل طور سے بلکہ واضح اور ٹھوس انداز میں اُبھر کر سامنے آیا ہے کرگل کے عوام کی اُمیدوں، توقعات اور روزمرہ کی ضروریات کے ساتھ ساتھ معاشرتی ، ترقیاتی اور انتظامی معاملات کے حوالہ سے ان کے جو کچھ بھی مطالبات او رتوقعات ہیں ان کی تکمیل کی ذمہ داری کامیاب اُمیدواروں پر براہ راست عائد ہوتی ہے۔ کامیاب اُمیدوار یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ وہ عوام کو اپنی تسخیر شدہ شئے تصور نہیں کریں گے اور نہ ہی عوامی خواہشات اور توقعات کے برعکس اپنی من مانیوں کو عوام پر مسلط کرنے کی حماقت کا راستہ اختیار کریں گے۔ کیونکہ یہ انتخابات اور ان کے نتائج کے مضمرات اور اثرات جب بھی یوٹی کے اسمبلی انتخابات ہوں گے پر پڑے بغیر نہیں رہیں گے، بے شک ماضی قریب میں ان کامیاب پارٹیوں نے ریاست میں اپنی حکمرانیوں کے دوران کچھ غلطیاں بھی کی ہوں اور عوام کی توقعات اور خواہشات کے برعکس فیصلے بھی لئے ہیں لیکن اب آنے والے دنوں کے تعلق سے ان کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی۔ کیونکہ نہ صرف پیغام واضح ہے بلکہ کرگلی عوام نے ایجنڈا بھی سیٹ کردیا ہے۔
لوگوں کی ۸۰؍ فیصد اکثریت انتخابات کی حامی ہے، صرف ۲۰ فیصد کے قریب لوگ ہیں جو اپنے حقیر مفادات کی تکمیل اور مکروہ سیاسی عزائم کے نقطہ نظر سے انتخابات نہیں چاہتے۔لہٰذا پارٹیوں کو سوچ سمجھ کر آگے کی رن نیتی وضع کرنی ہوگی جس میںعوام کی خواہشات اور توقعات کا سو فیصد عکس دکھائی بھی دے رہا ہو اور محسوس بھی کیا جارہا ہو۔ ہوائی قلعے تعمیر کرنے کی گنجائش نہیں ہے اور نہ ہی آبادی کے کسی حصے یا طبقے کو تسخیر شدہ شئے تصور کرنے کی حماقت سرزد ہونی چاہئے۔
بہرکیف کہا جاسکتا ہے کہ کرگلی عوام کی اکثریت نے جموں وکشمیر یوٹی کیلئے جو ایجنڈا مستقبل کے حوالہ سے سیٹ کردیا ہے اُس میں جہاں کامیاب پارٹیوں کے لئے بھی پیغام پنہاں ہے وہیں دو پارٹیوں کی آپسی الائنس نے کئی دوسری پارٹیوں کے جذباتی نعروں اور بلند وبانگ دعوئوں کو بھی کھوکھلا ثابت کردیا ہے۔