نئی دہلی//
عالمی امور پر مرکوز امریکی میگزین کے ایک مضمون میں مشرق وسطیٰ میں ہندوستان کے ایک ’بڑے کھلاڑی‘کے طور پر ابھرنے کو خطے میں برسوں میں سب سے زیادہ قابل توجہ اور دلچسپ جغرافیائی سیاسی پیش رفت قرار دیا گیا ہے ۔
رپورٹ میں اسرائیل، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سمیت خطے کے بڑے ممالک کے ساتھ نئی دہلی کے گہرے اور بڑھتے ہوئے تعلقات کو اجاگر کیا گیاہے ، تاکہ اس بات کو واضح کیاجا سکے کہ ہندوستان کے مقام کا ارتقاء، بدلتے ہوئے بین الاقوامی نظام اور خواہش کی عکاسی کرتا ہے اورشاید بے تابی کابھی ‘ جوان اقوام کو نئی کثیر قطبیت سے فائدہ اٹھانے میں مضمرنظر آتا ہے ۔
مضمون کے مصنف‘اسٹیون اے کک نے دلیل دی ہے کہ امریکہ اس پیش رفت کے بارے میں بہت کم کردار ادا کر سکتا ہے اور یہاں تک کہ اسکے بجائے وہ ایک طریقے سے اس سے فائدہ بھی اٹھا سکتا ہے ۔’’اگر امریکہ کے مشرق وسطیٰ کے شراکت دار،امریکہ کے متبادل کی تلاش کر رہے ہیں، تو یہ بہتر ہوگا کہ وہ ہندوستان کو اپنے انتخاب میں شامل کریں‘‘۔
کک نے زور دے کر کہا ’’امریکہ اب خطے میں غیر متنازعہ بڑی طاقت بن کر نہیں رہ سکتا، لیکن جب تک کہ ہندوستان، مشرق وسطیٰ میں اپنی موجودگی کووسعت دیتا ہے ، اس وقت تک نہ تو روس اور نہ ہی چین یہ کردار ادا کر سکتے ہیں‘‘۔
مصنف نے تقریباً ایک دہائی قبل اپنے ہندوستان کے دورے کی یاددہانی کراتے ہوئے بتایا کہ انہیں اس وقت جس بات کو محسوس کرکے حیرت ہوئی تھی وہ یہ احساس تھا کہ ہندوستانی، مشرق وسطیٰ میں کوئی بڑا کردار ادا نہیں کرنا چاہتے تھے ۔تاہم،انہوں نے کہا کہ ان کے سفر کے۱۰برسوں کے بعد کے عرصے میں، حالات بدل گئے ہیں۔
کک نے تحریر کیا ’’اب جبکہ امریکی حکام اور تجزیہ کار، چین کے ہر سفارتی اقدام پر جنون میں مبتلا ہیں اور مشرق وسطیٰ میں چینی سرمایہ کاری کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں، تو ایسے حالات میں واشنگٹن، برسوں میں خطے میں سب سے زیادہ اہم اوردلچسپ جغرافیائی سیاسی پیش رفت کو نظر انداز کر رہا ہے ‘اور وہ ہے ہندوستان کا مشرق وسطی ایک بڑے کھلاڑی کے طور پر ابھرنا‘‘۔
مضمون میں کہا گیا ہے کہ جب خلیج کی بات آتی ہے تو متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب جارحانہ انداز میں ہندوستان کے ساتھ تعلقات کو وسعت دینے کی راہیں تلاش کر رہے ہیں۔’’یہ ایک انتہائی اہم تبدیلی ہے کیونکہ دونوں ممالک، بالخصوص سعودی عرب نے ، طویل عرصے تک پاکستان کے ساتھ اتحاد کیا ہے ۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان کی توجہ کا محور اسلامی انتہا پسندی پر قابو پانے کے مشترکہ مفادات کی وجہ سے ہے ، لیکن اکثریتی زوراقتصادی ہے ‘‘۔
مضمون میں، ہندوستان اور دونوں ممالک کے درمیان فروغ پاتے ہوئے اقتصادی تعلقات کو نمایاں کرنے کے لیے روشنی ڈالی ہے ۔مضمون میں اسرائیل کے ساتھ ہندوستان کے مضبوط تعلقات کے بارے میں تحریر کیا گیا ہے کہ دونو ں ملکوں کے درمیان تعلقات، اس وقت شاید خطے میں نئی دہلی کے تعلقات میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ ہیں۔
ان تعلقات نے ،سنہ۲۰۱۷میں وزیر اعظم نریندر مودی کے اسرائیل کا دورہ کرنے والے پہلے ہندوستانی سربراہ حکومت بننے کے بعد اور ایک سال بعد ہیان کے ہم منصب بنجامن نیتن یاہو کے ذریعہ ہندوستان کا دورہ کرنے کے بعد، مختلف شعبوں،خاص طور پر ہائی ٹیک اور دفاع میں تیزی سے فروغ حاصل کیا ہے ۔
ماضی میں، ہندوستان کی کاروباری برادری نے اسرائیل میں سرمایہ کاری کرنے سے کنارہ کشی اختیار کی،جس کی وجہ ملک کی چھوٹی مارکیٹ اور متنازعہ سیاست (ہندوستان میں بہت سے لوگوں کے لیے ) سمجھی جاتی تھی۔ کک کا کہنا ہے کہ یہ صورتحال تبدیل ہو سکتی ہے ۔
کک کاکہنا ہے کہ۲۰۲۲میں، اڈانی گروپ اور ایک اسرائیلی شراکت دار نے‘حیفا بندرگاہ کیلئے۲ء۱؍ارب امریکی ڈالر کا ٹینڈر حاصل کیاتھا اور مزید برآں ہند،اسرائیل آزاد تجارتی معاہدے کے لیے بھی بات چیت جاری ہے ۔
مضمون میں مزید کہاگیا ہے ’’یقینا، ہندوستان اور اسرائیل کے تعلقات پیچیدہ ہیں۔ ہندوستان فلسطینیوں کی حمایت میں ثابت قدم ہے ؛ اسکے ایران کے ساتھ دوستانہ تعلقات ہیں، جس سے ہندوستان نے کافی مقدار میں تیل خریدا ہے ؛ اور ہندوستانی اشرافیہ کا رجحان اسرائیل کو ،ملک کے اپنے نوآبادیاتی تجربہ کے تناظر میں اسرائیل کے تقطہ نظر کے ذریعے دیکھنا ہے ‘‘۔
وزیراعظم مودی کے مصر کے حالیہ دو روزہ دورے کا حوالہ دیتے ہوئے ، مضمون نگار نے کہا ہے کہ تمام اقدامات سے ، یہ مصری‘ہندوستانی محبت کے سلسلے کی ایک جاری کڑی ہے ، جو مصری صدر عبدالفتاح السیسی کے ہندوستان کی۷۴ویں یوم جمہوریہ کی تقریب میں مہمان خصوصی بننے کے تقریباً چھ ماہ بعد ہوا ہے ۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ، السیسی کا یہ نئی دہلی کا تیسرا دورہ تھا۔
مضمون میں مزید کہا گیا کہ چینیوں کی طرح ہی، ہندوستانی بھی مصر کو ایک ایسا گیٹ وے سمجھتے ہیں جس کے ذریعے وہ اپنا سازوسامان افریقہ اور یورپ بھیجنا چاہتے ہیں۔
کک نے لکھا کہ یہ امریکی پالیسی سازوں اور تجزیہ کاروں کے لیے پرکشش ہے کہ وہ چین کے ساتھ بڑی طاقت کے مقابلے کے تناظر کے ذریعے ، خطے میں ہندوستان کے بڑھتے ہوئے کردار کا مشاہدہ کریں۔
اس مضمون میں کہا گیا ہے کہ بیجنگ لیے ایک اضافی متبادل قوت، مشرق وسطیٰ میں مددگار ثابت ہو گی، کیونکہ بائیڈن انتظامیہ خطے پر زور برقرار رکھنے سے بالا تر ، اسے چین پر قابو پانے کے مواقع کے طور پر مانتی ہے ۔’’اور جون کے آخر میں مودی کا واشنگٹن کا دورہ بھی ایک محبت کا میلہ تھا، جس میں سرکاری عشائیہ اور کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب بھی شامل تھا‘‘۔
مصنف کا استدلال ہے کہ امریکہ- بھارت تعلقات کی تمام مثبت لہروں کے لیے ، ایسا لگتا ہے کہ،ہندوستان اسی طرح کا جامع شراکت داربننا چاہتا ہے ، جس کاتصور امریکہ کرتا ہے ۔
مضمون میں کہا گیا ہے کہ جب مشرق وسطیٰ کی بات آتی ہے ، تو ہندوستان، ایران کے معاملہ پر امریکہ اور اسرائیل سے تیزی سے دور ہو جاتا ہے ، لہذا واشنگٹن کوبھی اس ضمن میں اپنی توقعات کو کم کرنا چاہیے کہ مشرق وسطیٰ میں ہندوستان کے اقتصادی اور سیکورٹی تعلقات کی توسیع کا کیا مطلب ہو سکتاہے ۔
مضمون میں کہا گیا ہے ’’اس بات کا امکان نہیں ہے کہ ہندوستان، امریکہ کے ساتھ اتحادی بن کر کھڑاہو جائے گا، لیکن یہ بھی امکان نہیں ہے کہ، نئی دہلی واشنگٹن کو قطعی اہمیت ہو نہ دے ، جیسا کہ بیجنگ اور ماسکو، دونوں نے کیا ہے ـ‘‘۔
مضمون میں مزید کہا گیا کہ یہ ایسا وقت ہے کہ نئی دہلی کی جانب سے خطے میں طاقت کے تخمینے کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہئے ۔