سرینگر//
سرینگر میں شہرہ آفاق جھیل ڈل کے کناروں پر واقع ایشیا کا سب سے بڑے باغ گل لالہ۱۸؍اپریل کو سیاحوں کیلئے بند ہوگا۔
متعلقہ حکام کا کہنا ہے کہ درجہ حرارت بڑھ جانے کے باعث باغ میں لگے ٹیولپ مرجھانے لگے ہیں جس کے باعث باغ کو۱۸؍اپریل سے بند کیا جائے گا۔
بتادیں کہ۶۸قسموں کے۱۵لاکھ ٹیولپس سے آراستہ و پیراستہ اس باغ گل لالہ کو ماہ مارچ کی ۲۳تاریخ کو سیاحوں کے لئے کھول دیا گیا تھا۔
باغ گل لالہ کے انچارج انعام الرحمان نے یو این آئی کو بتایا کہ ٹیولپ اب مرجھانے لگے ہیں جس کی وجہ سے باغ کو۱۸؍اپریل سے بند رکھنے کا فیصلہ لیا گیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ اس باغ کو کتنی مدت تک کھلا رکھا جا سکتا ہے اس کا انحصار موسم پر ہوتا ہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ ۱۵؍اپریل تک ساڈھے تین لاکھ سیاح اس باغ کے دلکش نظاروں سے لطف اندوز ہوگئے جو ایک ریکارڈ ہے ۔
قابل ذ کر ہے کہ اس سال ریکارڈ تعداد میں سیاحوں نے باغ گل لالہ کی سیر کی۔
متعلقہ حکام کے مطابق سال گذشتہ ۲لاکھ۲۶ہزار سیاح ہی اس باغ کی سیر سے لطف اندوز ہوئے تھے جبکہ امسال یہ تعداد ساڑھے تین لاکھ سے تجاوز کرے گی۔
محکمہ سیاحت کے ذرائع کے مطابق رواں سیزن کے دوران اب تک زائد از تین لاکھ سیاح وارد وادی ہو کر یہاں کے دلکش نظاروں سے لطف اندوز ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ماہ مارچ میں قریب ایک لاکھ اسی ہزار سیاح وادی کے حسین نظاروں سے محظوظ ہوئے ہیں جو گذشتہ ایک دہائی کے دوران ایک ریکارڈ ہے ۔
وادی میں سیاحوں کی غیر معمولی آمد کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جہاں ایک طرف سری نگر ہوائی اڈے پر روزانہ قریب۹۲پروازیں آپریٹ کر رہی ہیں جن میں روز آٹھ سے نو ہزار سیاح وارد وادی ہوجاتے ہیں وہیں سری نگر اور دیگر سیاحتی مقامات کے ریستوران، ہوٹل وغیرہ بھی گنجائش کے مطابق بھرے ہوئے ہیں۔
دریں اثنا وادی میں سیاحوں کی ریکارڈ ساز آمد سے جہاں شعبہ سیاحت کی جان میں جان آگئی ہے وہیں اس شعبے سے وابستہ لوگوں کے چہروں پر بھی بہار کی فضا سایہ فگن ہے جو گذشتہ دو تین برسوں سے مرجھائے ہوئے تھے ۔
شعبہ سیاحت کشمیر کی معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڑی کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کے ساتھ یہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کی روزی روٹی جڑی ہوئی ہے ۔
اقتصادی ماہرین کا ماننا ہے کہ اس شعبے کا استحکام وادی میں بے روزگاری کے مسئلے کو کافی حد تک دور کرنے کی گنجائش ہے ۔