اپنے کشمیر میں جتنے یتیم نہیں اتنے یتیم خانے ہیں ۔سال کے گیارہ مہینے تو ان کا کوئی اپتہ پتہ نہیں ہو تا ہے لیکن رمضان کی آمد کے ساتھ ہی یہ بھی نمودار ہو تے ہیں۔ جہاں آپ جائیگا انہیں وہاں انہیں پائیے گا ۔ مسجد میں مسجد کیلئے چندہ کی اپیل سے پہلے ان یتیم خانوں کیلئے چندہ کی اپیل کی جاتی ہے ۔گلی اور کوچوں میں جائے تو یہ آپ کو وہاں بھی ملیں گے ۔ بڑ ے بڑے قصبوں اور شہروں میں بھی انہوں نے اپنا ڈیرہ جما لیا ہے اور لوگوں سے چندہ مانگتے ہیں …اور بڑے خوب انداز میں مانگتے ہیں ۔لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے کوئی اچھی سی نعت لوگوں کو اپنے اور کھینچنے کیلئے استعمال کی جاتی ہے ۔ جنتی سریلی آواز میں نعت اتنے زیادہ لوگ چندہ دیں گے ۔بات یہیں پر نہیں رکتی ہے ۔ اخبارات کے صفحات یتیم خانوں کے اشتہارات سے بھرے پڑے ہوتے ہیںجن میں لوگوں سے چندہ کی گزارش کی جاتی ہے ۔ایک تو رمضان چل رہا ہے ‘دوسرا یتیموں کا معاملہ ہے بھی تھوڑا جذباتی … لوگ جذبات کی رو میں بہہ کر اپنی جیبوں کا تھوڑا بہت وزن ہلکا کر ہی لیتے ہیں ۔اس نیت سے کہ اللہ میاں ہول سیل میں ثواب دیں گے ۔یقینا اللہ میاں ثواب بھی دیں گے۔ یقینا بہ حیثیت ایک کشمیری اور مسلمان یتیموں کے تئیں ہماری کچھ ذمہ داریاں ہیں جنہیں نبھانا ہم سب کا اہم فرض ہے … لیکن بھیا پہلے یہ تو دیکھ لیجئے کہ جس کو آپ محنت سے کمائے ہوئے پیسے دے رہے ہیں وہ اس کا مستحق ہے بھی یا نہیں … صرف سریلی نعتوں اور لمبے چوڑے اشتہارات پر مت جائیے۔ یہ بھی دیکھئے کہ کیا پیسہ سچ میں یتیموں تک پہنچ جاتاہے یا پھر جمع کرنے والوں کی ذاتی تجوریوں میں کہ یہ کشمیر ہے اور یہاں ایسا ہو نا ممکن ہے … یہاں ایسا ہوسکتا ہے اور اللہ میاں کی قسم یہاں ایسا بھی ہو تا ہے ۔ پہلے پہل تو ملک کشمیر میں ملک کشمیر کے لوگ یتیموں کے نام پر‘ مسکینوں کے نام پر ‘ محتاجوں اور غرباء کے نام پر چندہ جمع کرتے تھے اب باہر سے بھی لوگ ملک کشمیر آتے ہیں اور سیدھا کام پر لگ جاتے ہیں اور…اور اس امید سے لگ جاتے ہیں کہ ان کا کام بن جائیگا اور اللہ میاں کی قسم ان کا کام بھی بن جاتا ہے … ہمیں اعتراض نہیں لیکن اپنی جیب کا وزن ہلکا کرنے سے پہلے تھوڑی سی جانچ پڑتال تو کی ہی جا سکتی ہے … تھوڑی سی جانچ کی جانی چاہئے ۔ہے نا؟