پاکستان کے ایک سینئر صحافی اور سابق وزیراعظم عمران خان کے قریبی دست راست تصور کئے جارہے ایاز امیر نے اپنے ایک مضمون میں ہند پاک تعلقات کے حوالہ سے موجودہ زمینی حقائق کے تناظرمیں اپنے خیالات کا کھل کر اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ دونوں ملک کشیدگی کو جاری رکھتے ہوئے کیا حاصل کررہے ہیں اور سوال کیا ہے کہ چین اور تائیوان مسائل اور کشیدہ تعلقات میں اُلجھے ہیں لیکن آپسی تجارت چلتی ہے، امریکہ اور چین کے تعلقات ٹھیک نہیں لیکن دونوں ایک دوسرے کے تجارتی پارٹنر ہیں، ہندوستان اور چین کے تعلقات خراب ہیں، سرحد پر گاہے گاہے جھڑپیں بھی ہوتی ہیں لیکن دونوں ملکوں کے درمیان سالانہ تجارت کا حجم تقریباً ایک سو بلین ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ لیکن ساتھ ہی خود سے سوال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ہم کس عقل کی پیداوار ہیں کہ ہندوستان جس سے جغرافیائی لحاظ سے ہمارا کوئی چھٹکارا نہیں اس کے ساتھ ہم نے تمام دروازے بند کئے ہوئے ہیں‘‘۔
ایاز امیر نے اپنے اس مضمون میں کشمیرکے کئی حوالے دئیے ہیں جبکہ کشمیرکے تعلق سے پاکستانی سوچ، طرزعمل اور طریقہ کار کوآڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا ہے کہ’ ’جب دفعہ ۳۷۰ کو ختم کیا گیا اور کشمیر کا آئینی الحاق ہندوستان سے کردیاگیا تو ہم پاکستانیوں کو پنڈت جواہر لال نہرو کی تقریریں یاد آنے لگیں اور کہنا شروع کردیا کہ مودی سرکار ان سے انحراف کررہی ہے۔ کیا یہ ہماری مفلسانہ افکار کا آئینہ نہیں ؟ کشمیر کاکوئی فوری حل نہیں۔ ہمارا کیا مسئلہ ہے۔ ہم نے وہاں (کشمیر) جنگجو بھیج کے دیکھ لیا، قتل وغارت ہوئی، کشمیرآزاد نہ ہوا، جنگجویانہ کارروائیوں کی اب کشمیرمیں گنجائش نہیں، جتنا جلد ہم یہ سمجھ سکیں اتنا ہمارے لئے بہتر ہے۔ کشمیریوں کا فائدہ بھی اسی میں ہے۔ جنگجویانہ کارروائیوں سے ان (کشمیریوں) کی زندگیاں بہتر نہیں ہوئیں…… نچوڑ یہ ہے کہ موجودہ پالیسیوں سے ہمیں کچھ حاصل نہیں ہورہاہے۔‘‘
ایاز امیر غالباً پہلے پاکستانی صحافی نہیں ہیں جو ہند پاک تعلقات کوا س مخصوص عینک سے دیکھ کر افسردہ نظرآرہے ہیں ۔ اور بھی کئی ہیں جو چاہتے ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان آپسی اور خوشگوار تعلقات قائم ہوں، عوامی سطح پر رابطے اور آنا جانا ہو، تجارتی اور کاروباری تعلقات قائم ہوں، بھلے ہی دوسرے کئی معاملات پر دونوں کے اختلافات ہوں جنہیں مذاکرات کی وساطت سے ایک ایک کرکے حل تلاش کیا جاسکتاہے لیکن یہ ممکن نہیں کہ دونوں کے درمیان سرحد کی جو لکیر کھینچ چکی ہے اس میں کسی قسم کا بدلائو لایاجاسکے۔ اس جغرافیائی حقیقت کو تسلیم کرنا دونوں کے بہتر مفادات میں ہے۔
مضمون نگار کے ان خیالات کو پاکستان کے موجودہ معاشی بحران، ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی کرنسی کی مسلسل درگت، ہوشربا مہنگائی سے معاشرتی سطح پر پیدا ہورہے تکلیف دہ حالات اور پھر سیاسی سطح پر بے چینی، تذبذب ، اپوزیشن اور حکومت کے درمیان گہرے ہوتے جارہے اختلافات، بدلہ کے جذبات سے عبارت انتقامی کارروائیاں اور اب نئے سرے سے دہشت گردی اور لٹیرانہ سرگرمیوں کاسامنا کے مخصوص تناظرمیں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہندوستان کے ساتھ تعلقات کو کچھ نہ کچھ حد تک بہتر بنانے سے ان میں سے کئی ایک بحرانوں پر پاکستان آسانی سے قابو پاسکتاہے۔ لیکن جیسا کہ خود ایاز امیر تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان نے تجارت کے تعلق سے ہندوستان کے ساتھ دروازے بند کرکے واقعی اپنی مفلسانہ فکر کا مظاہرہ کیا ہے۔
کشمیرکے تعلق سے جن خیالات کو ضبط تحریر میں لایا ہے وہ مفروضہ پر مبنی نہیںہے بلکہ تلخ حقائق ہیں۔ ایازامیر کا یہ اعتراف بہت اہمیت کا حامل ہے کہ ’’ہم نے جنگجو کشمیر بھیج کردیکھ لیا، قتل وغارت ہوئی لیکن کشمیر آزاد نہ ہوا اور اب کشمیرمیں جنگجو کارروائیوں کے لئے کوئی گنجائش نہیں ‘‘۔
کشمیر تو ایک مدت سے چلا رہا ہے کہ سرحد پار سے مسلح دراندازی کی پالیسی کا باب بند کرکے مذاکرات کا راستہ اختیار کیاجائے، کشمیرکو کھنڈرات میں تبدیل کرنے سے پاکستان کو کچھ بھی نہ ملا، یہی سوال ایاز امیر پاکستان کے سیاستدانوں، پالیسی ساز اداروں، خدائی مخلوق( آرمی اور آرمی کی ذیلی شاخوں کے ساتھ ساتھ ان عناصر سے بھی کررہے ہیں جو کشمیرپر آنکھیں بند کرکے ۷۵ ؍سال سے چلا رہے ہیں اور دہلی کے لال قلعہ پر سبزہلالی پرچم لہرانے کے خواب دیکھ اور پاکستانی عوام کو سنا سنا کر انہیں بے وقوف بنارہے ہیں۔ پاکستان کے ایک سابق فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کو بھی اس احمقانہ نظریہ اور اپروچ کا احساس ہوا تھا اور اُس نے بھی اپنے دور اقتدار کے دوران ان عناصر کو اپنی احمقانہ اور طفلانہ سوچ کے خول سے باہر آنے کا یہ کہکر مشورہ دیا کہ وہ دہلی کے لال قلعہ پر سبز ہلالی پرچم لہرانے کے خواب دیکھنا بند کریں۔ لیکن یہ پاکستان کا پالیسی المیہ ہے کہ وہاں کچھ ادارے اور جنون پرست فکر کے حامل لوگوں کی کچھ تعداد اس قسم کے خواب دیکھ رہی ہے اور ہزیمتوں پر ہزیمتیں اُٹھانے اور جھیلنے کے باوجود خوابوں کی دُنیا سے خود کو باہر آنے کیلئے تیار نہیں۔ کیایہ تعبیر کی غلطی نہیں؟
کشمیربے شک فی الوقت سنگین ترین دور سے گذررہاہے اوسط کشمیری گوناگوں مسائل اور مصائب سے جھوج رہا ہے ، اس کے سر سے چھت اور پائوں کے نیچے سے زمین بڑی تیزی کے ساتھ سرکتی جارہی ہے، وہ معاشی بحران سے جھوج رہاہے، روزگار کے حوالہ سے روٹی اور سکون کے حوالہ سے چھت سے محروم ہوتا جارہاہے، ان حالات کے مخصوص تناظرمیں جب ٹھنڈے دل ودماغ سے غورکیاجاتا ہے اور اب تک پیش آمدہ حالات واقعات کا گہرائی سے تجزیہ کیا جاتا ہے تو یہی مخصوص جواب سامنے آجاتا ہے کہ یہ سب کچھ اُس مسلح دراندازی کا ثمرہ ہے جو سرحد کے اُس پار سے وہاں کے سیاستدانوں، اس کے اداروںاور پالیسی ساز لوگوںنے کشمیر کے تعلق سے مرتب کی اور اب جس پالیسی کو گذشتہ ۳۰؍ برسوں سے عملی جامہ پہنا یاجارہاہے۔
مضمون نگار نے کشمیرکے تعلق سے جنگجویانہ کارروائیوں اور جنگجو کشمیر کی طر ف روانہ کرنے کی اسی پالیسی ، طریقہ کار اور کشمیرکو بحیثیت مجموعی پہنچے نقصانات اور تکالیف کی طرف واضح اشارہ کرکے یہ واجبی سوال کیا ہے کہ ’ہم نے حاصل کیا کیا،لیکن کیا پاکستان کے پالیسی ساز افراد اور ادارے اس سوال کاجواب دیں گے، نہیں، اور نہ ہی اس سوال پر غور وفکر کرنے کی زحمت گوارا کریں گے ۔ کیونکہ یہ اُن جنو پرستوں کے مزاج میں شامل نہیں۔
کشمیر اپنی مفرد سوچ ، شناخت اور تشخص رکھتا ہے۔ اس سوچ، تشخص اور شناخت کا تحفظ یقینی بنانے کیلئے کشمیر کی پانچ ہزار سالہ تاریخ واقعات اور معاملات سے بھری ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ عہد شکنیوں، جعلسازیوں، ریاکاریوں، دغابازیوں اور پیٹھ پیچھے چُھرا گھونپنے کے روادار عنصر کی معاونت نے اس شناخت او رتشخص کو ہر دور میں نقصان پہنچانے کی کوشش کی، عصری تاریخ بھی اس کی گواہ ہے جس کا تعلق ۱۹۴۷ء ، ۱۹۶۵ء اور دوسرے ادوارمیں پیش آمدہ واقعات میںکشمیر کے مجموعی رول اور کردار کے ساتھ ساتھ مزاحمت سے ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ خطے کی طاقتوں کو اس کانہ اعتراف ہے ، احسا س ہے اور نہ سمجھ!