سرینگر//
جموں کشمیر کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس (ڈی پی جی) دلباغ سنگھ نے منگل کو کہا کہ کشمیر میں سرگرم مقامی ملی ٹینٹو کی تعداد کو دو ہندسوں تک کم کر دیا گیا ہے جب کہ ’غیر ملکیوں کی ایک کم تعداد سرگرم ہے جس کا سراغ لگایا جا رہا ہے‘‘۔
دلباگ نے کہا پاکستان کو کشمیر کا پر امن ماحول پسند نہیں ہے اس لئے وہ اس طرح کی کارروائیوں کا سہارا لے رہے ہیں ۔ کنٹرول لائن کے اس پار بیٹھے کچھ عناصر کشمیر میں جاری امن کو ہضم نہیں کر سکتے ۔
پولیس سربراہ نے کہاجہاں تک ملٹنسی کی حیثیت کا تعلق ہے، فعال مقامی عسکریت پسندوں کی تعداد کو صرف دو ہندسوں پر لایا گیا ہے۔
شمالی کشمیر کے بارہمولہ قصبہ کے دورے کے موقع پر ڈی جی پی سنگھ نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ابھی تک بہت کم غیر ملکی عسکریت پسند سرگرم ہیں۔ ان کاکہنا تھا ’’عسکریت پسندی کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں اور بہت جلد باقی ماندہ عسکریت پسندوں کو بھی ختم کر دیا جائے گا‘‘۔
ڈی جی پی نے کہا کہ ایک وقت میں، شمالی کشمیر عسکریت پسندی سے بری طرح متاثر ہوا تھا اور اس وقت’’یہ جگہ تقریباً پرامن ہے اور اب وہاں عسکریت پسندی کا اثر کم ہے‘‘۔
ہائبرڈ عسکریت پسندی کے بارے میں، انہوں نے کہا کہ یہ ایک چیلنج رہا ہے کیونکہ سرحد پار سے ہینڈلرز نوجوان لڑکوں کو لالچ دے رہے تھے، انہیں ہتھیار اور ٹارگٹ دے رہے تھے۔
ڈی جی پی نے کہا’’ہم اس چیلنج کا سامنا کرنے میں بڑی حد تک کامیاب ہوئے ہیں اور اس سال اب تک، جموں و کشمیر میں ہائبرڈ عسکریت پسندوں کے ۱۰۰ سے زیادہ ماڈیولز کا پردہ فاش کیا گیا ہے‘‘۔
کشمیر فائٹ بلاگ کے بارے میں ایک سوال پردلباغ نے کہا کہ کنٹرول لائن کے اس پار بیٹھے کچھ عناصر کشمیر میں جاری امن کو ہضم نہیں کر سکتے اور اس لیے وہ پولیس، میڈیا والوں اور یہاں تک کہ عوامی نمائندوں کو دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔
ڈی جی پی نے کہا’’یہ میڈیا ہے جسے فیصلہ کرنا ہے۔ میڈیا والوں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہم نے پہلے ہی بلاگ اور اسے چلانے والے لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کر رکھا ہے۔ اس بلاگ کو سنبھالنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی‘‘۔
دلباغ نے کہا’’ہم اس بلاگ پر ہونے والی سرگرمیوں پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں‘‘۔
ڈی جی پی نے کہا کہ کشمیر میں صحافیوں کو دھمکی آمیز پیغام بلیک لسٹڈ بلاگ میں شائع کیا جا رہا ہے۔کشمیر فائٹ ڈاٹ کام امن کو خراب کرنے کے لیے پاکستان سے چلایا جاتا ہے۔ پولیس کے مطابق، بلاگ، جو مبینہ طور پر پاکستان سے چلایا جا رہا ہے، کشمیر میں مقیم مختلف صحافیوں اور کارکنوں کے خلاف بدنامی کی مہم چلاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ۵ کشمیری صحافیوں نے ایک عسکریت پسند تنظیم کی طرف سے ایک درجن سے زیادہ میڈیا والوں کی فہرست جاری کرنے کے بعد استعفیٰ دے دیا ہے، جس میں ان پر سیکورٹی فورسز کے مخبر ہونے کا الزام لگایا گیا تھا۔
پولیس سربراہ نے شمالی کشمیر میں سیکورٹی کی صورتحال اور پولیس فورس کے بنیادی ڈھانچے کو اپ گریڈ کرنے کی ضرورت کا جائزہ لیا۔