نئی دہلی//
سپریم کورٹ نے بدھ کے روز کہا کہ وہ۲۹ نومبر کو ایک عرضی کی سماعت کرے گی جس میں جموں و کشمیر کے مرکز کے زیر انتظام علاقے میں قانون ساز اسمبلی اور لوک سبھا حلقوں کو دوبارہ ترتیب دینے کے لیے حد بندی کمیشن کی تشکیل کے حکومت کے فیصلے کو اس بنیا پر چیلنج کیا گیا ہے اس نے آئینی دفعات کی خلاف ورزی کی۔
جسٹس ایس کے کول اور اے ایس اوکا کی بنچ کو سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ انہیں اس معاملے میں کچھ دستاویزات ریکارڈ پر رکھنے ہیں۔مہتا نے کہا کہ اس نے متعلقہ سکریٹری کے ساتھ بات کی ہے جس نے اس مسئلے سے نمٹا ہے۔
بنچ نے ان کی عرضی کا نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ دستاویزات ایک ہفتے کے اندر داخل کی جائیں اور کشمیر کے دو شہریوں کی عرضی کو۲۹ نومبر کو سماعت کے لیے مقرر کیا گیا۔
سپریم کورٹ نے۱۳ مئی کو مشاہدہ کیا تھا کہ درخواست گزاروں نے آئین کے آرٹیکل۳۷۰ کی منسوخی کو چیلنج نہیں کیا ہے لہذا اس سے متعلق درخواستوں کو نظر انداز کیا جانا چاہئے۔
عدالت عظمی نے اپنے حکم میں نوٹ کیا تھا کہ چیلنج درحقیقت ۶مارچ ۲۰۲۰؍اور۳مارچ۲۰۲۱ کے نوٹیفیکیشنز کے مطابق حد بندی کے سلسلے میں کی گئی مشق کا تھا۔سپریم کورٹ نے جواب دہندگان ـ‘مرکز، جموں و کشمیر انتظامیہ اور الیکشن کمیشن آف انڈیا‘ سے چھ ہفتوں کے اندر جوابی حلف نامہ داخل کرنے کو کہا تھا۔
دو درخواست گزاروں‘ حاجی عبدالغنی خان اور محمد ایوب مٹو کے وکیل نے دلیل دی کہ حد بندی کی مشق آئین کی اسکیم کے خلاف کی گئی اور حدود میں ردوبدل اور توسیعی علاقوں کو شامل نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔