ایک اور ٹارگٹ کلنگ، ایک اور احتجاج ، ایک اور ٹیلی ویژن شو اور بحث وتکرار ، سیاسی لیڈروں اور ان سے وابستہ بانت بانت کی بولیاں بولنے والی جماعتوں کی بیان بازیاں، سابق پولیس آفیسران اور سابق بیروکریٹوں کے تجزیے، کشمیرکے اس مخصوص منظرنامے کے حوالہ سے نیا نہیں بلکہ ۳۲ سال سے یہی ہورہاہے۔ البتہ ان گذرے برسوں کے دوران پہلے ٹارگٹ کلنگ میں ملوثین کو جنگجو یا دہشت گرد کے نام سے شناخت ظاہر کی جارہی تھی اب ملوثین کو ہائی برڈ اور ریڈیکل ملی ٹنٹ کے طور پہنچان دی جارہی ہے۔
ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ صرف کشمیر میں ملک کے مختلف حصوں سے حصول روزگار کے حوالہ سے آئے مزدور ہی نہیں بنے ہیں بلکہ کشمیر ی پنڈت ملازمین یا کاروباری بھی بن رہے ہیں۔جبکہ اوسط کشمیری، چاہئے اس کا تعلق پولیس یاکسی فورسز ایجنسی سے رہاہے یا کوئی پیشہ ور …مسلمان اور سکھ بھی دوسروں سے کہیں زیادہ نشانہ بنتے رہے ہیں۔فرق صرف یہ ہے کہ کوئی کشمیری نشانہ بن جاتا ہے تو کسی ٹیلی ویژن پر خصوصی بحث وتکرار اور بیان بازی نہیں ہوتی لیکن غیر مقامی مزدور نشانہ بن جائے یا کوئی پنڈت برادری سے وابستہ کوئی کشمیری یہ توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں۔
کیوں؟ آج تک اس کیوں کا کوئی جواب نہیں ملا۔ کشمیرمیں کچھ مہینوں کی خاموشی کے بعد ایک اور کشمیری پنڈت کی دہشت گردوں کے ہاتھوں ہلاکت اور اس دلخراش واقعہ کے کچھ ہی گھنٹوں بعد دو غیرمقامی مزدروں کی گرینیڈ دھماے میں ہلاکت اس با ت کی طر ف واضح عندیہ ہے کہ دعوئوں کے برعکس وادی ہنوز استحکام کو ترس رہی ہے۔اس بات کا بین ثبوت اس وقت ایک بار پھر سامنے آیا جب کشمیرمیں کئی مقامات پر لوگوں نے احتجاجی مظاہرے کئے اور واضح کیا کہ کشمیر آبادی کے کسی بھی طبقے اور فرقے سے وابستہ کسی بھی شہری کی ہلاکت کے جنون کو پسند نہیں کرتا، نہ ایسے روح فرسا واقعات کا حامی ہے اور نہ ان واقعات میںملوث جنگجو ، دہشت گرد ، ہائی برڈ وغیرہ کو انسان تصور کررہاہے بلکہ انہیں بغیر کسی تمیز اور تمہید کے محض ایک قاتل سمجھ رہا ہے۔ جس کا کوئی مذہب نہیں، کوئی عقیدہ نہیں، جو کسی ڈسپلن کا پابند نہیں اور جو بنی نوع انسان کو اپنے اختراعی نظریے اور عقیدے کی تکمیل کی راہ میں صرف اور صرف ایک دُشمن سمجھ رہاہے۔اس ذہنیت کے حامل لوگ صرف اور صرف دہشت گرد ی کے قائل ہیں، وہ امن اور مذاکرات میں یقین نہیں رکھتے۔
جوسیاسی لوگ اس نوعیت کے سانحات پرمذمتی بیان بازی کررہے ہیں اور لواحقین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے دو بول بولتے ہیں درحقیقت وہی لوگ اس گن کلچر کے بانی ہیں اور اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل کیلئے مختلف بہروپے اختیار کرکے اس گن کلچر کی آبیاری کرتے رہے ہیں۔ کسی کی ہلاکت پر مگر مچھ کے ٹسوے بہانا درحقیقت ان کی سیاسی شعبدہ بازی ہے۔ کشمیرکی سیاسی اُفق پر جتنے بھی سیاسی چہرے جلوہ افروز ہیں ان سے یہ سوال تو واجبی ہے کہ وہ بتائیں کہ ابتداء سے اب تک گن کلچر یا دوسرے الفاظ میں عسکریت اور اس کے نام پر دہشت گردی اور ہلاکتوں کا سدباب کرنے کیلئے انہوںنے کون سے اقدامات کئے، ان سیاسی چہروں میں سے اکثریت مختلف وزارتوںمیں وزارتی عہدوں پر بھی فائز رہے ہیں لیکن ان میں سے کسی ایک کے ساتھ بھی انسداد کے حوالہ سے کوئی ایک بھی قدم یا کارنامہ منسوب نہیں۔
اس کے برعکس ان میں سے کچھ وہ بھی ہیں جو گن کلچر اور عسکریت کے ساتھ بلواسطہ یا بلاواسطہ وابستہ اور شریک کاررہے ہیں، لیکن اپنی اس حیثیت اور شناخت کا لبادہ اپنے جسموں سے اتار پھینک کر لیکن قومی دھارے میں واپسی کا نعرہ لگا کر کوئی وزیر بنا، کوئی قانون ساز یہ کارکن بنا، کوئی اعلیٰ سرکاری عہدہ کا منصب دار بنا، غرض اس منظرنامے کے دسترخوان پر بیٹھ کر اقتدار اور طاقت کی بوٹیاں حلق سے اتارنے میں ہی اپنی عافیت اور عاقبت تصور کرتا رہا۔ یہی اس قوم کاشمیر کی بہت بڑی بدقسمتی ہے۔ ان گذرے برسوں کے دوران کس سیاستدان اور کس سیاسی جماعت نے کیا رول اداکیا وہ اوسط کشمیری سے پوشیدہ نہیں،البتہ بدبختی اور بدقسمتی یہ ہے کہ لوگ ان کے کردار، قول وفعل پر گہری نگاہ رکھنے کے باوجود ان کے جلسوں میں شرکت کرکے ان کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں۔
ٹارگٹ کلنگ کانشانہ کشمیری سکھ، کشمیری پنڈت یا کشمیری مسلمان بنے اس کی رگوں سے رسنے والا خون کا ہر قطرہ سرزمین کشمیرمیں جذب توہورہاہے لیکن یہ جذب ہونے والا خون گھرانوں،خاندانوں اور بحیثیت مجموعی کشمیراور کشمیری معاشرتی اقدار کیلئے المیوں کو ہی جنم دیتا جارہاہے۔ اس گرنے والے خون پر جو کوئی بھی سیاست کررہاہے ، بیان بازی کرکے اپنا لوسیدھا اور مکروہ عزائم کی تکمیل چاہتا ہے وہ کشمیراور کشمیریوں کا کوئی خیر خواہ نہیں بلکہ بدترین دُشمن ہے۔اس خون خرابے میں جو کوئی بھی ملوث ہے اور جو کوئی بھی دور بیٹھ کر تاریں ہلارہا ہے وہ روزمحشر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بطور مجرم ہی پیش ہوگا اور اس سے پوچھا جائے گا کہ بتائو کیوں قتل وغارت کرتے رہے، زمین پر فساد برپا کرتے رہے جبکہ اللہ تعالیٰ اس سے یہ بھی پوچھے گا کہ کیا واضح پیغام نہیں دیاگیا تھا کہ زمین پر فساد برپانہ کرو اور بے گناہ کو قتل مت کرو کیونکہ ایک بے گناہ کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔
بہرحال یہ معاملات ٹیلی ویژن پر بحث ومباحثوں ، سیاستدانوں کی بیان بازیوں اور کچھ مخصوص حلقوں کی جانب سے ذومعنی جملوںکی آڑ میں کشمیر کو بطور عفریت اور ہلاکتوں کا ذمہ دار ٹھہرانے کی فسطائی کوشش کا بار بار اعادہ کا راستہ اختیار کرنے سے نہ حل ہوگا اور نہ قابو میں آسکتا ہے ، اس کیلئے متحدہ کوشش ، مدبرانہ اور حکیمانہ اپروچ اور جامع روڈ میپ وضع کرکے اس کو عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے۔ اس حوالہ سے سکیورٹی گرڈ کا اپنامخصوص طریقہ کار تو ہوسکتا ہے لیکن وقفے وقفے سے پیش آمدہ واقعات یہ واضح کررہے ہیں کہ یہ گرڈ زیادہ کامیاب نہیں بلکہ کچھ خامیاں بھی ہیں جو مکمل کامیابی کی راہ میں مانع ہیں۔
کشمیرنشین قومی دھارے سے وابستہ سیاستدان واقعی اگر کشمیراور کشمیری عوام کے مخلص ہیں تو اپنے سکیورٹی حصار وں سے باہر آکر خود بھی منظم ہوجائیں اور عوام کو بھی منظم کریں اسمبلی الیکشن کرانے، ریاستی درجہ کی بحالی اور دوسرے کچھ مطالبات اس سارے پس منظر میں ثانوی درجہ رکھتے ہیں۔