جموں وکشمیرمیں مجوزہ اسمبلی انتخابات کے تعلق سے ہر جائز اور غیر مستحق سٹیک ہولڈر جتنی منہ اُتنی باتوں کے ساتھ اپنے ظاہری وجود کو منوانے اور جتلانے کی کوشش کررہاہے۔ ان کی طرف سے پیش کئے جارہے مطالبات میں کوئی وزن ہے کوئی منطق ہے یا کوئی دلیل ہے قطع نظراس سب کے بات کی جارہی ہے، مطالبات کی لمبی فہرستیں سامنے لائی جارہی ہیں جبکہ کچھ کی جانب سے جموں وکشمیر ایڈمنسٹریشن کی جانب سے حد بندی کمیشن کو پیش کی گئی یا کی جارہی سفارشات ؍مشوروں کے آگے سوالیہ لگاتے جارہے ہیں۔
پارلیمنٹ میں اس حوالہ سے ایک سوال کے جواب میں حکومت نے اپنے اس موقف کا اعادہ کیا کہ الیکشن کے اہتمام وانعقاد کا حتمی فیصلہ الیکشن کمیشن کے حد اختیارات میں ہے جبکہ حد بندی کمیشن نے الیکٹورل رولز کو قطعی اور حتمی شکل وترتیب دینے کیلئے اکتوبر کے آخیر تک کا وقت مقرر کیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا الیکشن کا انعقاد اتنا ہی سہل اور آسان ہے جتنا سمجھا جارہاہے اور کیا بُنیادی لوازمات، الیکٹورل رولز پر مختلف سیاسی جماعتوں اور عام رائے دہندگان کی طرف سے ممکنہ اعتراضات کو ایڈریس کئے بغیر ہی الیکشن کا انعقاد ممکن ہے، جواب نفی میں ہے۔
بادی النظر میں اکتوبر کے آخیر تک الیکٹورل رولز کی ترتیب وتکمیل کے بعد کچھ دن اعتراضات وصول کرنے اور پھر ان اعتراضات کوایڈریس کرنے میںدرکا رہوں گے ۔ پھر پارلیمنٹ میں اس تعلق سے مختلف معاملات پیش کرکے پارلیمنٹ کی منظوری حاصل کرنے کی سمت میں بھی کچھ اور دن درکا رہوں گے۔ جس وقت تک یہ مراحل طے ہوں گے یا ہوسکنے کا امکان اس وقت تک جموںوکشمیرمیں موسم سرما دستک دے رہا ہوگا۔ پھر بارشوں، برفباری اور یخ بستہ اور ٹھٹھرتی سردی میں الیکشن کا اہتمام قدرے ناممکن تو نہیں البتہ مشکل ضرورت ہے کیونکہ مسئلہ رائے دہندگان کی الیکشن میں شرکت سے ہی تعلق نہیں رکھتا بلکہ پولنگ بوتھوں پر عملے کی تعیناتی، ان کی نقل وحرکت اور دوسرے انتظامات کی عمل آوری کیلئے ایڈمنسٹریشن کو بھی بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ادھر الیکشن عمل کے تعلق سے مستحق اور غیر مستحق سٹیک ہولڈر جہاں اس ساری عمل کو انتہائی یکطرفہ اور سیاست زدہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں وہیں یہ جو مطالبات پیش کئے جارہے ہیں انہیں قبول کرنے کی صورت میں جموںوکشمیر میں علاقہ پرستی، فرقہ پرستی، لسانی پرستی اور مذہبی نظریات کی ایک نئی بُنیاد پڑ سکتی ہے۔
۱۹۴۷ء اور ۱۹۶۵ء اور ۱۹۷۱ء کی ہند پاک جنگوں کے نتیجہ میں مغربی پاکستان اور پاکستان کے زیر کنٹرول کشمیر پناہ گزینوں کی سرحد کے اس پار آمد اور رہائش اختیار کرنے والے لاکھوں افراد مجوزہ اسمبلی میں اب اپنے لئے دس حلقے مخصوص رکھنے کا مطالہ کررہے ہیں۔ کشمیر ی پنڈتوں کی جانب سے بھی دو حلقے مختص رکھنے کا مطالبہ ہے جبکہ جموںوکشمیر کی ساڑھے تین لاکھ نفوس پر مشتمل سکھ برادری بھی اپنے لئے مخصوص حلقوں کی مانگ کررہے ہیں۔
ملک کی کسی بھی ریاست میں آبادی کے مختلف حلقوں کیلئے الگ الگ الیکٹورل پراسیس کی نہ کوئی روایت ہے اور نہ ہی مروج، لیکن جموںوکشمیر میں مذہبی شناخت ، لسانیات، علاقہ ، طبقہ ،ذات پات کو بُنیاد بناکر علیحدہ الیکٹوریٹ کی مانگ سامنے لائی جارہی ہے یا حلقے مخصوص کرنے کی بات کی جارہی ہے۔ جبکہ جموں وکشمیر کی الیکٹورل پراسیس کے حوالہ سے ۱۹۴۷ء کے بعد سے اب تک کوئی ایسی نظیر نہیں ملتی البتہ سیاسی مصلحتوں کی بُنیاد پر انتخابی فراڑ اور دھاندلیوں کو ضرور روارکھا جاتارہاہے۔
اگر الیٹورل پراسیس کو انہی نظریات اور اختراعی بُنیادوں پر قبول کرکے عملی جامہ پہنانے کی روایت کو سند قبولیت عطا کی گئی تو ملک کی وہ اقلیتیں جن کی آبادی کروڑوں میں ہے جن میں ملک کی دوسری بڑی اکثریت … مسلمان، اس کے بعد سکھ برادری، جین اور خود ہندو آبادی کا دلت اور یادو طبقے اپنے لئے علیحدہ الیکٹوریٹ کا مطالبہ کرنے اور اسمبلیوں اور پارلیمان کے دونوں ایوانوں میںمتناسب نمائندگی کی بُنیاد اور خطوط پر مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہوسکتے ہیں۔
یہ نظریہ ملک کی تقسیم درتقسیم اورآبادی کے مختلف طبقوں میں تفرقہ اور عدم رواداری کے زہر کا نیا بیج بونے کے سارے راستے ہموار کرنے کیلئے کافی ہے۔ اس نظریے اور طبقاتی کشاکشی پر مبنی علیحدہ علیحدہ الیکٹوریٹ کے اُبھر رہے سارے مطالبات اور دلیلیں جہاں عدلیہ کے لئے غووفکر کا مقام ہے وہیں حکومت کیلئے بھی دعوت لمحہ سے کم نہیں۔
بہرحال ابھی مطالبات پیش کرنے کی دوڑ جاری ہے لیکن معقولیت اور حکیمانہ طرزفکر کا تقاضہ یہی ہے کہ ایسے سارے مطالبات کو جن کی بُنیاد مذہبی شناخت، فرقہ واریت، علاقہ پرستی، لسانیات اور ذات پات کے حوالہ سے مختلف طبقات پر رکھی جارہی ہے کو اسی مرحلہ پر ملک کے وسیع تر اتحاد اور یگانگت کے مفاد میں روک کر ایڈریس کیاجائے۔