عدن، یمن //
اقوام متحدہ کی تین ایجنسیوں نے اتوار کو خبردار کیا ہے کہ یمن کے جنوبی صوبوں میں تقریباً 50 لاکھ افراد کو خوراک کے عدم تحفظ کا سامنا ہے اور اگر فوری کارروائی نہ کی گئی تو صورتحال مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے۔
فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (ایف اے او)، ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) اور اقوام متحدہ کے بچوں کے ہنگامی فنڈ (یونیسیف) نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ فوری اور مستقل امداد کے بغیر، ستمبر اور فروری 2026 کے درمیان اس خطے کے تقریباً 420,000 مزید افراد کے سامنے بھی اسی طرح کے سنگین بحران پیداہونے کا خدشہ ہے۔اس سے خطے میں خوراک یا خوردنی اشیاء کی کمی جھیلنے والوں کی کل تعداد 53 لاکھ سے زیادہ ہوجائے گی، جو یمن کے جنوبی علاقوں کی نصف سے زیادہ آبادی ہے۔
ایجنسیوں نے بحران کو بڑھانے والے کئی عوامل کا حوالہ دیا ہے، جن میں طویل اقتصادی گراوٹ، یمنی کرنسی کی تیزی سے قدر میں کمی، جاری تنازعہ اور منفی موسمی حالات شامل ہیں۔
ان تنظیموں نے ان لوگوں کو بھکمری سے بچانے، ضروری خدمات تک رسائی کو یقینی بنانے اور متاثرہ آبادی کے لیے معاشی اور روزی روٹی کے مواقع پیدا کرنے کے لیے فوری طور پر بڑے پیمانے پر انسانی امداد کا مطالبہ کیا۔
غور طلب ہے کہ یہ انتباہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب یمن کی کرنسی کو تاریخ کی سب سے بڑی گراوٹ کا سامنا ہے۔ حال ہی میں، جنوبی بندرگاہی شہر عدن اور حکومت کے زیر کنٹرول دیگر علاقوں میں ریال کی قدر گرکر فی امریکی ڈالر 2750 کے آس پاس رہ گئی ہے۔
دراصل یمن 2014 کے آخر سے ہی تنازعات میں گھراہوا ہے، جب ایرانی حوثی گروپ نے اس کے کئی شمالی صوبوں پر قبضہ کر لیا تھا، جس سے بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت کو دارالحکومت صنعا سے فرار ہونے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔ سعودی قیادت والے اتحاد کی جانب سے 2015 میں سعودی حکومت کی بحالی کے لیے مداخلت کے بعد یہ تنازعہ مزید بڑھ گیا۔
دوسری دہائی میں داخل ہونے والی جنگ نے مزید دھماکہ خیز صورتحال پیدا کر دی ہے، جسے اقوام متحدہ نے دنیا کابدترین انسانی بحران قرار دیا ہے۔ ثالثی کی متعدد کوششوں کے باوجود، یہ خطہ پائیدار امن معاہدے کی پہنچ سے دور ہے۔