واشنگٹن///)
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اُن اطلاعات پر تبصرہ کیا ہے جن میں کہا گیا ہے کہ امریکہ، ایران کے خلاف اسرائیل کے ممکنہ حملے کے پیش نظر انتہائی درجے کی چوکس حالت میں ہے۔
بدھ کے روز وائٹ ہاؤس کے سربراہ نے اعلان کیا کہ ان کی انتظامیہ مشرق وسطیٰ سے امریکی اہل کاروں کو منتقل کر رہی ہے کیوں کہ وہ علاقہ خطرناک” ہو سکتا ہے۔ اس موقع پر انھوں نے ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے کے عزم کو دہرایا۔
واشنگٹن کے کینیڈی سینٹر میں ایک فلم کی نمائش کے دوران صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ سے امریکی سفارتی عملے کی منتقلی سے متعلق خبروں پر کہا "ٹھیک ہے، ان کی منتقلی اس لیے ہو رہی ہے کہ یہ جگہ خطرناک ہو سکتی ہے۔” اور پھر کہا "ہم دیکھیں گے کیا ہوتا ہے۔”
اسی دوران امریکی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ علاقائی کشیدگی کے بڑھنے کے باعث غیر ضروری امریکی سرکاری ملازمین کی واپسی کی ہدایت کی گئی ہے۔
یہ اعلان اس وقت سامنے آیا جب امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ” نے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ مشرق وسطیٰ میں امریکی سفارت خانے اور فوجی اڈے ہنگامی حالت میں کر دیے گئے ہیں۔
بدھ کے روز امریکی اور عراقی ذرائع نے بتایا کہ امریکہ، عراق میں اپنے سفارت خانے کے جزوی انخلاء کی تیاری کر رہا ہے۔ مزید یہ کہ مشرق وسطیٰ کے بعض علاقوں سے فوجیوں کے اہل خانہ کے انخلا کی اجازت دے دی گئی ہے، کیوں کہ خطے میں سیکیورٹی خطرات بڑھتے جا رہے ہیں۔
ایک امریکی عہدے دار نے روئٹرز کو بتایا کہ بحرین اور کویت میں امریکی فوجیوں کے اہل خانہ کو علاقائی کشیدگی کے پیش نظر علاقہ چھوڑنے کی اجازت دی گئی ہے۔ تاہم یہ اجازت عارضی ہے۔اسی سلسلے میں امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگسیتھ نے کہا ہے کہ انھوں نے مشرق وسطیٰ کے مختلف مقامات پر تعینات امریکی فوجیوں کے اہل خانہ کے رضاکارانہ انخلاء کی اجازت دے دی ہے۔
یہ سخت حفاظتی اقدامات اس وقت کیے جا رہے ہیں جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ جوہری پروگرام پر معاہدے کی امیدیں کم ہوتی دیکھ کر تشویش کا اظہار کیا ہے، اور اس امر کا اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ ایران کے ساتھ ایک نئی فوجی محاذ آرائی مشرق وسطیٰ میں تباہ کن ہو سکتی ہے۔
اگرچہ ایران اور امریکہ کے درمیان اتوار کے روز عمان میں چھٹے دور کی براہ راست بات چیت ہونا طے تھا، جس میں امریکی نمائندے اسٹیو وٹکوف اور ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کے درمیان مذاکرات ہونا تھے، لیکن با خبر ذرائع نے بتایا ہے کہ یہ بات چیت ممکنہ طور پر نہ ہو سکے گی۔
ایک امریکی اہل کار نے "العربیہ/الحدث” کو تصدیق کی کہ امریکہ نے خطے میں کسی اضافی فوجی کمک کی تعیناتی نہیں کی ہے۔ اہل کار نے مزید کہا کہ امریکی خاندانوں کے انخلا کا فیصلہ اسرائیلی دھمکیوں کے تناظر میں احتیاطی اقدام کے طور پر کیا گیا ہے، نہ کہ کسی فوری خطرے کے تحت۔
دوسری جانب، بدھ کے روز سرکاری عراقی ذرائع نے ان اطلاعات کو مسترد کر دیا کہ بغداد میں امریکی سفارت خانے کو خالی کرانے کی کوئی سیکیورٹی ضرورت پیش آئی ہے، حالاں کہ امریکی اور عراقی ذرائع اس امکان کا اظہار کر چکے تھے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ گزشتہ چند مہینوں میں امریکی انٹیلی جنس حکام کو اس بات پر گہری تشویش لاحق رہی ہے کہ اسرائیل، امریکی اجازت کے بغیر ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کر سکتا ہے۔
ایسا کوئی حملہ نہ صرف ٹرمپ انتظامیہ کی جوہری بات چیت کو ناکام بنائے گا بلکہ ایران کو امریکی مفادات پر جوابی حملے پر مجبور کر دے گا، جیسا کہ "واشنگٹن پوسٹ” نے بتایا ہے۔
ایران پہلے ہی متعدد بار خبردار کر چکا ہے کہ اگر اسرائیل نے اس پر حملہ کیا تو امریکہ، جو کہ اسرائیل کا سب سے بڑا فوجی اور سیاسی حامی ہے، اس کے نتائج بھگتے گا۔
اسی دوران امریکی وزارت خارجہ نے حال ہی میں ان تمام سفارت خانوں کو، جو ایرانی اہداف کے قریب واقع ہیں … جن میں مشرق وسطیٰ، مشرقی یورپ اور شمالی افریقہ کے سفارتی مشن شامل ہیں، ہنگامی کمیٹیاں قائم کرنے اور واشنگٹن کو خطرات میں کمی سے متعلق اقدامات کی رپورٹ بھیجنے کا حکم دیا ہے۔