سرینگر//
جموں کشمیر کابینہ کی ذیلی کمیٹی جس کو سال گذشتہ تشکیل دیا گیا تھا‘ نے یونین ٹریٹری میں موجودہ ریزرویشن پالیسی کے خلاف شکایات کا جائزہ لینے کے لیے اپنی رپورٹ کا مسودہ تیار کیا ہے جس کو کابینہ کے اجلاس کے وقت پیش کیا جائے گا۔
یہ اعلان وزیر برائے تعلیم و صحت سکینہ یتو، جو اس کابینی سب کمیٹی کی سربراہ بھی ہیں، نے منگل کے روز’ایکس‘پر اپنے ایک پوسٹ کے ذریعے کیا۔انہوں نے کہا کہ رپورٹ ۶ماہ کی مقررہ مدت میں تیار کی گئی ہے ۔
سکینہ یتو نے اپنے پوسٹ میں کہا’’ریزرویشن کے معاملے کی جانچ کے لیے تشکیل دی گئی کابینہ کی ذیلی کمیٹی نے ۶ماہ کی مقررہ مدت میں اپنی رپورٹ کا مسودہ تیار کر لیا ہے ‘‘۔انہوں نے کہا کہ یہ رپورٹ کابینہ کے اجلاس کے وقت پیش کیا جائے گا۔
قابل ذکر ہے کہ سال گذشتہ ماہ مارچ میں لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے جموں و کشمیر ریزرویشن ایکٹ، ۲۰۰۴میں ترمیم کی، جس نے سرکاری ملازمتوں میں ریزرویشن کو۴۳فیصد سے بڑھا کر ۷۰فیصد کر دیا۔
اس پالیسی پر احتجاجی مظاہرے ہوئے اور بعد ازاں جموں کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے متنازعہ پالیسی کا جائزہ لینے کیلئے ذیلی کمیٹی تشکیل دی جس کو اپنی رپورٹ جمع کرنے کیلئے۶ماہ کا وقت دیا گیا۔
اس دوران پی ڈی پی کے رہنما وحید پرہ نے منگل کو کہا کہ عمر عبداللہ کی حکومت کو کابینہ کی ذیلی کمیٹی کی رپورٹ کو عوام کے سامنے لانا چاہئے جو کہ جموں اور کشمیر میں ریزرویشن کے بارے میں ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کے ارادے مشکوک ہیں۔
پرہ نے ایکس پر پوسٹ میںکہا’’طلباء جواب مانگ رہے ہیں، تاخیر نہیں۔ میرٹ پر کابینہ کمیٹی کی رپورٹ کو چھپانے کی ضرورت کیوں ہے؟ آپ کی حکومت کے عدالت میں میرٹ کے خلاف مؤقف کے بعد، ارادے ہی نہیں بلکہ عمل بھی سوالیہ نشان ہیں۔ چھ سال کی غیر منتخب حکومت کے بعد، لوگوں کا کم سے کم حق شفافیت کا ہے۔ رپورٹ کو عوام کے سامنے لائیں‘‘۔
پی ڈی پی کے رہنما جموں و کشمیر کی وزیر سکینہ ایتو کے پوسٹ پر رد عمل دے رہے تھے، جس میں انہوں نے کہا کہ کابینہ کی ذیلی کمیٹی نے اپنی رپورٹ مکمل کر لی ہے اور وہ اسے اس وقت پیش کرے گی جب وزراء کا کونسل اگلی بار میٹنگ کرے گا۔
پرہ نے پوسٹ میں کہا ’’جموں و کشمیر ایک پر تشدد خطہ ہے جو دہائیوں کی صدمات، افسردگی اور بھارت میں سب سے زیادہ بے روزگاری کی شرح کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے۔ اس کی آبادی کا ۶۵ فی صد نوجوان ہے، جو بے امیدی اور بہتر مستقبل کے خوابوں کے درمیان جدوجہد کر رہے ہیں۔ ایک سرحدی ریاست ہونے کے ناطے، جس کی اسٹریٹجک اہمیت بے شمار ہے، ہمارے نوجوان صرف ایک موقع ہی نہیں بلکہ ایک چیلنج بھی ہیں اگر انہیں نظر انداز کیا گیا تو‘‘۔
پی دی پی کے ممبر اسمبلی نے مزید کہا کہ نازک امن کی حالت میں، دہشت گردی کی دھمکیاں اور سرحد پار جھڑپوں کے درمیان، کشمیر کے نوجوانوں نے میرٹ پر مقابلہ کرنے کا راستہ چنا ہے۔ وہ ڈاکٹر، انجینئر، سول سروسز کے اہلکار، اور ایک بہتر کل کے معمار بننا چاہتے ہیں، جو شاید کسی بھی قوم کے لیے بہترین چیز ہو سکتی ہے‘‘۔
اپنے پوسٹ میں پلوامہ کے ممبر اسمبلی مزید لکھتے ہیں ’’پھر بھی، ان کے خوابوں کیلئے سب سے بڑی رکاوٹ تشدد نہیں بلکہ میرٹ پر نظامی پابندی ہے۔ ملک کا واحد علاقہ جہاں نوجوانوں کو میرٹ ہونے پر سزا دی جاتی ہے، افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ جموں و کشمیر ہے‘‘۔
پی ڈی پی لیڈر نے یہ بھی کہا کہریزرویشن کا ہونا ضرورت مندوں کو اٹھانے کے لئے اہم ہے، لیکن یہ کسی بھی صورت میں میرٹ کی قیمت پر نہیں آنا چاہئے۔اسی لئے ہم نے ریزرویشن کی پروریٹا ریاسینائزیشن کا مطالبہ کیا ہے‘‘۔
وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے ’’اس ناقص ریزرویشن پالیسی کے جن کو پیدا نہیں کیا، لیکن یہ آپ کی پارٹی،آپ کے ایم ایل اے اور آپ کے ممبران پارلیمنٹ تھے جنہوں نے اس کی اصلاح کا وعدہ کیا‘‘۔
پرہ نے مزید کہا ’۵۰ نشستوں کا مکمل مینڈیٹ حاصل کرنے کے بعد اس علاقے میں جہاں ۷۰ فیصد لوگ میرٹ پر انحصار کرتے ہیں، آپ کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں؟ کون سا کاروباری اصول، کون سی ریاست، کون سی ذیلی کمیٹی آپ کو روکے ہوئے ہے؟ یہ شرم کی بات ہے کہ ایک جماعت کا بانی خود مختاری کے لیے کھڑا ہوا، لیکن آج وہ میرٹ کے لیے بھی کھڑا نہیں ہو سکتا‘‘۔
پی ڈی پی کے رہنما نے یہ بھی کہا کہ اگر رہنما نوجوانوں اور انصاف کے اصول کے لیے یکجا نہیں ہو سکتے، ’’تو ہم کس مستقبل کی بات کر رہے ہیں؟ میرٹ کی قیادت کرنے دیں۔‘‘